والد کی جبری گمشدگی: ہمارا خاندان گذشتہ پندرہ سالوں سے ریاستی تشدد کا سامنا کررہی ہے۔ ماہ زیب بلوچ

44

حب چوکی سے گذشتہ روز پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے شفیق زہری کی بیٹی ماہ زیب بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا میں آپ کے سامنے ایک بار پھر اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم اور ریاستی زیادتیوں کی داستان لے کر حاضر ہوئی ہوں۔

ماہ زیب بلوچ نے اس موقع پر کہا سات سال قبل ہمارے خاندان پر اس وقت قیامت برپا کی گئی جب میرے والد کے چھوٹے بھائی، میرے چاچا راشد حسین بروہی کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے پاکستانی حکام نے بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کے ذریعے اغوا کرکے پاکستان منتقل کیا۔

انکا کہنا تھا ان سات سالوں میں ہم نے اسی ریاست کے آئین کے تحت بنائی گئی عدالتوں اور حکومتی تشکیل کردہ کمیشنوں میں اپنی درخواستیں جمع کرائیں، میں اور میری بزرگ دادی کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے اسلام آباد تک سات سال فریاد لے کر ہر در پر گئے، لیکن ہمیں انصاف تو درکنار، سنا تک نہیں گیا۔

انہوں نے کہا میں اس سے قبل درجنوں بار کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں پرامن احتجاج اور دھرنے دے کر اپنے لاپتہ چاچا کی بازیابی کا مطالبہ کرتی رہی ہوں، میرے چاچا کی جبری گمشدگی کو سات سال مکمل ہونے کو ہیں، وہ تو بازیاب نہیں ہوئے، اب میرے والد شفیق الرحمان زہری کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ماہ زیب بلوچ کے مطابق انکے والد پیشے کے اعتبار سے ایک پروفیسر ہیں اور زہری کالج میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، وہ گزشتہ کئی سالوں سے حب، خضدار اور کراچی میں منشیات سے متاثرہ افراد کے لیے قائم پرورش ریکوری سینٹرز میں فلاحی خدمات سرانجام دے رہے تھے کل بروز بدھ انہیں اسی سینٹر سے ریاستی اداروں نے جبری طور پر اغوا کیا۔

انہوں نے کہا میرے والد کے اغوا کار جو مسلح تھے نے سینٹر میں موجود CCTV کیمروں کو توڑا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے ہم نے فوری طور پر حب تھانے میں درخواست جمع کرائی، مگر کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود میرے والد کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔

انکا کہنا تھا میرے والد ماضی میں طلبہ سیاست سے وابستہ رہے ہیں، اور 2013 میں بھی حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنے تھے، پندرہ روز شدید تشدد کے بعد نیم مردہ حالت میں بازیاب ہوئے، اس کے بعد انہوں نے خود کو مکمل طور پر تدریسی اور فلاحی کاموں تک محدود کر لیا اس وقت ان کا کسی بھی سیاسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ماہ زیب بلوچ نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا میں آج ایک بیٹی کی حیثیت سے آپ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے چاچا راشد حسین اور اپنے والد شفیق الرحمان زہری ولد عبدالرسول زہری کی با حفاظت بازیابی کی اپیل کررہی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا ہمارہ خاندان گذشتہ پندرہ سالوں سے ریاستی تشدد اور ازیت کا سامنا کررہا ہے، اسکے باوجود میں پرامن طریقے اور ریاستی آئین کے تحت انصاف کا مطالبہ کرتی رہی ہوں، مجھ پر بھی آیف آرز ہوئے یہی قریب مسلم اسکول سے ریاستی اداروں مجھے پر امن احتجاج کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا ریاست ہمارے آئینی مطالبات اور پر امن آوازوں کو بزور طاقت زیر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یے کسی جمہوری ریاست کا اپنے شہری کے ساتھ رویہ نہیں ہو سکتا بلکے ڈکٹیٹرز بھی صرف انھیں سزا دیتے ہیں جو انکے خلاف بولتے ہیں لیکن یہاں ریاست ہمیں اجتماعی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔

ماہ زیب بلوچ کا کہنا تھا میں اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں ریاست سے سوال کرتی ہوں میرے والد کہاں ہے اور حکومتی سے میرا مطالبہ ہے کہ مجھے انصاف فراہم کیا جائے اور میرے والد کو فوری طور پر منظرِ عام پر لایا جائے۔