بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق 17 دسمبر کو ہائی کورٹ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر قیادت کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں دفاع اور استغاثہ دونوں نے اپنے دلائل پیش کیے۔
سماعت کے دوران دفاعی وکلا نے اپنا مؤقف مکمل طور پر عدالت کے سامنے رکھا۔ اس کے برعکس، استغاثہ BYC قیادت کی مسلسل حراست کو جائز قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس شواہد یا قابلِ اعتماد حقائق ریکارڈ پر پیش کرنے میں ناکام رہا۔ ان پُرامن سیاسی کارکنان کے خلاف عائد الزامات کے حق میں کوئی معتبر ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تنظیم نے کہا ہےکہ اس مرحلے پر معاملہ مکمل طور پر عدلیہ کے اختیار میں ہے۔ یہ اب محض ضمانت کا سوال نہیں رہا، بلکہ عدالتی آزادی، آئینی وابستگی اور اخلاقی جرات کا امتحان بن چکا ہے۔ عدالت کا فیصلہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا عدالتی ادارے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں یا پُرامن سیاسی اظہار کو دبانے کے لیے بطور آلہ استعمال ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے عوام کے لیے اس مقدمے کا نتیجہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود اگر خاموشی، تاخیر یا ریلیف سے انکار کیا گیا تو اس سے یہ خدشات مزید مضبوط ہوں گے کہ قانونی عمل کو انصاف، وقار اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ تاریخ صرف جبر کے واقعات کو ہی نہیں، بلکہ ان لمحات کو بھی یاد رکھتی ہے جب اداروں نے انصاف کے بجائے اطاعت کا راستہ چنا۔ عدلیہ اس وقت ایسے ہی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔


















































