کرفیو زدہ شہر – ٹی بی پی اداریہ

46

کرفیو زدہ شہر

ٹی بی پی اداریہ

کوئٹہ، بلوچستان کا مرکزی شہر ہے، جو طبی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کا محور سمجھا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود شہر آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد تقریباً ہر مہینے کوئٹہ میں انٹرنیٹ سروس پر غیر اعلانیہ بندش عائد کی جاتی ہے، جس کے باعث شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ دفعہ 144 کے نفاذ کے نام پر شاہراؤں پر سخت چیکنگ معمول بن چکی ہے، جہاں شہریوں کی تذلیل ایک روزمرہ کا عمل بن گیا ہے۔ رات کے اوقات میں گھروں پر چھاپے اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں شہر کے متعدد علاقوں میں عملاً کرفیو جیسی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

کوئٹہ شہر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے، جبکہ ان جبری گمشدگیوں کے خلاف متحرک سیاسی رہنماؤں کو پابندِ سلاسل بنا کر مزاحمتی سیاست پر عملی طور پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ اس عمل کے ذریعے شہر میں خوف اور بے یقینی کی فضا قائم کی گئی ہے۔ برسراقتدار حکومت ان پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے انہیں انسدادِ انسرجنسی کے تقاضہ سے جوڑتی ہے، مگر زمینی حقائق اس بیانیے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔

حکومت اور پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کوئٹہ میں ان اقدامات کو سنگین سیکیورٹی صورتحال کے باعث ناگزیر قرار دیتے ہیں، تاہم نومبر کے مہینے میں شہر کی اہم شاہراہوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور انٹرنیٹ سروس پر مکمل بندش عائد رہی، لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود پاکستان فوج پر حملوں میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مسلح تنظیموں کی جانب سے بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر ناکہ بندیوں کا سلسلہ جاری رہا اور نوکنڈی میں پاکستان فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر مہلک حملہ بھی ہوا۔

ریاستی ادارے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئٹہ شہر میں کرفیو جیسی صورتحال مسلط کرکے عوام کے لیے مزید مصیبتیں پیدا کر رہے ہیں۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ پابندیوں پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت نے حکمتِ عملی کے تحت انٹرنیٹ کی رفتار اس حد تک کم کر دی ہے کہ عملی طور پر سروس ناقابلِ استعمال ہو چکی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات سے معروضی حالات میں بہتری آنے کے بجائے کوئٹہ کے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔