الماس ؛ میری ان کہی کہانی کا کردار – سفر خان بلوچ (آسگال)

199

الماس ؛ میری ان کہی کہانی کا کردار

تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

کئی دنوں سے مسلسل میرے ازہان میں یہ خیال ابھر رہا ہے کہ سادہ الفاظ کے پیرائے میں اپنے بچھڑے دوست کی کہانی لکھوں، تاہم لفظ کہاں انسان کی خواہش کے تابع ہوتے ہیں۔؟ لفط تو اپنی مرضی کے مالک، اپنی فطرت کے اسیر ہوتے ہیں۔ میں نے اس خیال سے قلم اٹھایا تھا کہ لفظوں کے ہمراہ داری میں ہم فکر دوست کی کہانی کو کاغذ کے سپرد کردوں لیکن جب میں انگلیوں میں دبے قلم کو کاغذ پر پیر کر کچھ لکھنے کی جستجو کررہا ہوں تو الفاظ بغاوت پر اُتر آئے ہیں۔

لکھتے ہوئے لفظ میرے ذہن پر دستک دیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے دھوئیں کی لکیروں کی طرح تحلیل ہو جاتے تھے۔ بکھرے حروف میرے خیالات سے ٹکراتے ہیں مگر الفاظ کو پیرائے میں بدلنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ جن لفظوں کو پیرائے میں بدلنا میرا دستور عمل رہا ہے وہ مجھ سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔

میں نے کمبر سے الفاظ مستعار لینے کے لئے بھی رابطہ کیا تھا لیکن وہ محو سفر ہوکر اپنے ناول کے ادھورے صفحوں پر دشت کی مٹی میں دفن ان یادوں کو سمیٹنے کی کوشش میں مگن ہے جو اس نے سرخ ستاروں کے ساتھ گزارے ہیں لیکن وہ بھی ان یادوں کو کہانی کی شکل دینے سے قاصر ہے اور اپنے ادھورے ناول کی ورک گردانی کر رہا ہے۔ ان یادوں کو سمیٹنے کے لئے الفاط اس کا بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ بچھڑے دوستوں کے یادوں کو مجتمع کرنا مشکل ترین کام ہے اور ان یادوں کو لکھتے وقت آشنا الفاط بھی ساتھ دینے سے انکار کردیتے ہیں۔

اس وقت میں لفظوں کے پیچھے دوڑ رہا ہوں مگر لفظوں کے قدم مجھ سے ہمقدم ہونے سے انکاری ہیں۔ لفظ جو درد بیان کرکے اس کے اثر کا زائل کرتے ہیں، لیکن آج یہی لفظ میرے لئے اذیت بن گئے ہیں۔ میں جو لکھنا چا رہا ہوں اس کے حروف “ا” ابھی زمین پر ٹھہرا بھی نہیں ہوتا کہ “ل” بادِ صبا کی طرح دور نکل جاتا ہے۔ “م” کا دائرہ مکمل ہونے لگتا ہے تو “ا” پھر سے کسی اور سمت اُڑ جاتا ہے۔ “س” تو جیسے کسی چھپی وادی کا مسافر ہے، نظر آنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ جیسے “ا ل م ا س” نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ میرے ہاتھ نہیں آئے گا، وہ آج میری کہانی کا حصہ بننے سے انکار کر چکا ہیں۔

“ الماس “ جو لفظوں کو رنگ دینے کی جادوگری سے آشنا تھا، آج اسی الماس کی کہانی کو کاغذ پر بکھرنے کے لیے لفظ بغاوت پر آمادہ ہیں۔ الماس عمل اور افکار کا دھنی تھا۔ اس کی بندوق سے نکلتی گولیاں کہانیاں سناتی تھی اور اس کے افکار ازہان کو مختلف کرنے کی جستجو سے آشنا کرتے تھے۔ وہ جو دوسری کی کہانیوں کو زبان دیتا تھا، آج اس کی کہانی کو زبان دینے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

الماس نے کارلوس مارگیلا کی مشہور تصنیف “ شہری گوریلا “ کے نام سے ترجمہ کیا تھا ۔ کارلوس مارگیلا جو نظریہ دان، کمیونسٹ جنگجو تھا اور الماس اسی کارلوس مارگیلا کے نقش قدم پر چل کر بلوچ جنگ میں عملی اور فکری محاذ پر سرگرم تھا۔
کارلوس مارگیلا کے سنگ مزار پر یہ قول لکھی ہے کہ “ میرے پاس خوفزدہ ہونے کے لئے وقت نہیں ہے “، الماس نے کارلوس مارگیلا کی کہانی ہم تک پہنچائی لیکن الماس کی کہانی لکھنے کے لئے لفظ میرے ہم رکابی کے لئے تیار نہیں ہیں۔

کچھ فاصلے صرف قدموں سے نہیں ناپے جاتے، کچھ جدائیاں لفظوں سے بڑی ہوتی ہیں۔ ہر یاد ایک ادھوری سطر بن کر دل کے کاغذ پر ابھرتی ہے اور اگلے ہی لمحے مٹ جاتی ہے، جیسے وقت خود ان کہانیوں کو مکمل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ جن چہروں کے ساتھ ہنسی بانٹی جاتی تھی، آج ان کے نام بھی لبوں تک آتے آتے خاموشی میں تحلیل ہو جاتے ہیں، اور دل میں ایک بے نام سی کسک اوڑھ کر رہ جاتا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ ماضی کی گلیوں میں بکھری ہوئی آوازیں موجود ہیں، مگر جب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو صرف خاموشی استقبال کررہا ہے۔ یادیں اگر قلم میں ڈھل بھی جائیں تو ان کی اصل خوشبو، وہ لمس، وہ بے ساختہ قہقہے کاغذ پر قید نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے ہر لفظ لکھنے سے پہلے رک جاتا ہے، اور ہر جملہ مکمل ہونے سے پہلے ٹوٹ جاتا ہے، جیسے دل خود اس جدائی کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو۔

بچھڑے ہوئی یادیں اب اس دعا کی طرح ہیں، جو مانگی تو جاتی ہیں مگر قبولیت کی خبر نہیں آتی۔ ان یادوں کو سینے میں سمیٹے جینا ہوتا ہے، اس امید کے ساتھ کہ شاید کسی دن کوئی اجنبی سا لفظ خود چل کر آئے اور ان سب کہانیوں کو یکجا کر دے۔ مگر فی الحال خاموشی کے ساتھ اپنے ادھورے کہانی کے اوراق الٹتا ہے، اور ہر صفحے پر خود کو تھوڑا سا مزید بکھرتا ہوا پاتا ہوں۔

رات جب گہری ہوتی ہے تو یادوں کا شور اور تیز ہو جاتا ہے۔ اندھیرے میں آنکھیں بند کیے ان لمحوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہوں جو کبھی اس کے بہت قریب تھے۔ ہر یاد دل پر ہلکی سی دستک دیتی ہے، مگر دروازہ کھلتے ہی خاموشی اندر آ بیٹھتی ہے۔

کبھی دل چاہتا ہے کہ وقت کو روک کر کسی پرانی محفل میں واپس لوٹ جاؤں، جہاں آواز زندہ تھی اور خواب ابھی تھکے نہیں تھے۔ مگر وقت بے رحم مسافر ہے، نہ رکتا ہے نہ پلٹتا ہے۔ وہ بس اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے، اور انسان ان نشانات کو دیکھ کر ساری عمر راستہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ ان یادوں کا بوجھ اٹھائے اکثر خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا بچھڑنا ہی ہر تعلق کا آخری جواب ہے۔؟

پھر ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب سب کچھ چھوڑ کر خاموش بیٹھ گیا۔ نہ لکھنے کی خواہش، نہ کہنے کی ہمت۔ صرف ایک طویل سانس اور دل کے کسی کونے میں چھپی ہوئی نمی، یہ ادھورے پن ہی اس تحریر کی پہچان ہیں، اور شاید یہی ادھورے جملے اس کے سب سے سچا مرثیہ ہیں۔

کبھی کبھار خود کو ان یادوں سے باتیں کرتے ہوئے پاتا ہوں، جیسے وہ ابھی بھی وجود رکھتے ہوں جو بس ایک پل میں لوٹ آئیں گے۔ ان سے شکوہ بھی کرتا ہوں کہ کیوں اتنی خاموشی سے بچھڑ گئے، اور پھر اگلے ہی لمحے معذرت خواہ بھی ہو جاتا ہوں کہ شاید قصور وقت کا تھا، ان لمحوں میں دل اتنا بوجھل ہو جاتا ہے کہ سانسیں بھی ادھار لگتی ہیں، اور آنکھیں کسی انجانی نمی سے بھر جاتی ہیں۔

یادوں کی یہ بارات جب دل کے آنگن میں اترتی ہے تو ہر ہنسی ایک آہ میں بدل جاتی ہے کہ جن خوابوں کو مل کر دیکھا تھا، وہ اب کسی گم نام گلی میں تپش بسملانہ لے رہے ہیں۔

اور پھر میں قلم کو میز پر رکھ کر دیر تک خالی کاغذ کو تکتا رہتا ہوں۔ اس خالی پن میں اپنی ہی کیفیت کا عکس نظر آتا ہے۔ لفظ جیسے روٹھ گئے ہوں، اور احساسات اتنے گہرے ہوں کہ صفحہ ان کا وزن نہ اٹھا سکے۔ یہ خاموشی بھی ایک تحریر ہے، شاید سب سے سچی، جو صرف وہی پڑھ سکتا ہے جس نے بچھڑنے کا دکھ جیا ہو۔

دیر تک کاغذ پر جھکا رہتا ہوں، جیسے بہت کچھ لکھ چکا ہوں، جیسے صفحہ دل کے بوجھ سے بھر گیا ہو۔ مگر جب نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں صرف چند بے ربط سطریں تھیں، جن میں نہ درد پورا تھا نہ یاد مکمل، جیسے اس کے خیال میں ایک پوری کتاب جنم لے چکی ہو، مگر حقیقت میں لفظوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا جو کچھ کہنا چاہتا تھا، وہ اندر ہی رہ گیا، اور قلم محض خاموشی کی لکیریں کھینچ کر رک گیا۔

لفظوں کو الزام بھی نہیں دے سکتا، کیونکہ بغاوت شاید ان کی مجبوری تھی۔ احساسات اتنے شدید تھے کہ لفظ ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ ہر جملہ لکھنے سے پہلے ٹوٹ جاتا، اور ہر خیال صفحے تک پہنچتے پہنچتے بکھر جاتا۔ محسوس ہوا کہ آج پہلی بار الفاظ میرے دشمن بن گئے ہیں، یا شاید وہ خود میرے لیے اجنبی ہو چکے ہیں۔

میں نے بارہا لکھنے کے لئے ہاتھ بڑھایا، مگر لفظ میری قلم کی نوک سے پھسلتے جارہے ہیں۔ جیسے پانی کو مٹھی میں قید نہیں کیا جا سکتا، اس طرح آج میں لفظوں کو قید کرنے سے قاصر ہورہا ہوں، شاید میرے وجود میں کہیں ایسا درد پنپ رہا ہے، جسے میں لفظوں کے سپرد کرنے سے گھبرا رہا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے الماس کی کہانی لکھنے کے لئے لفظ مجھ سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔

آخرکار میں، میں نے کاغذ پلٹ دیا، ذہن میں کہانیاں اب بھی شور مچا رہی تھیں، مگر صفحہ بدستور خالی تھا۔ کبھی کبھی سب سے گہری تحریر وہ ہوتی ہے جو لکھی ہی نہیں جاتی، اور کبھی کبھی خاموشی، لفظوں کی سب سے بڑی شکست ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔