ہفت دسمبر (شہدائے کوہِ سلیمان اور ماسٹر وحید بزدار) – مرید بلوچ

27

ہفت دسمبر (شہدائے کوہِ سلیمان اور ماسٹر وحید بزدار)

تحریر: مرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“بلوچستان منئی ماثیں”، “بلوچستان میری ماں ہے”

یہ کلمات ماسٹر وحید بزدار کے تھے۔ اس عظیم مفکر کے الفاظ ہیں جو شیرو مری کے ساتھ جنگی کمانڈر تھے۔ وہ مزاحمت کی علامت، اصولوں کی مثال اور حب الوطنی کا استعارہ تھے۔ یقیناً ماسٹر وحید کوہِ سلیمان کی مزاحمتی تاریخ کا ایک عظیم باب تھے۔

ماسٹر وحید بزدار صرف ہمارے سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ انہیں ایک بزرگ اور ایک سرپرست کا درجہ حاصل تھا۔ ان کے حوصلے بندر کے بلند پہاڑ جیسے بلند تھے۔ وہ حان بند کے چھیذغ تھے۔

انہوں نے اپنی مزاحمتی زندگی کا آغاز دسمبر 1967 سے کیا۔ اس وقت آپ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان تھے۔ ان ادوار میں کوہِ سلیمان میں تعلیم یافتہ افراد گنے چنے تھے۔ ایوبی آمریت کے دور میں سرکار نے کوہِ سلیمان کے آبی گذرگاہوں، سیاہ آف اور بارانی راستوں پر ٹیکس لگانے کا تہیہ کرلیا تھا۔

اس وقت نوجوان صدیق بزدار اور ماسٹر وحید بزدار نے تمام بزدار جہد کاروں کو اکٹھا کیا اور سرکار کے اس فیصلے کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا ٹھان لیا۔

کوہِ سلیمان میں یہ جنگ صرف زمین کی پیمائش کے خلاف بغاوت نہ تھی بلکہ ریاست کی اس نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف اعلانِ بغاوت تھی جو مقامی انسان کو اس کی اپنی زمین پر اجنبی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

ماسٹر وحید اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس تاریخی لمحے میں وہ آواز بنے جو صدیوں پرانے قبائلی حقِ خود ارادیت کو جدید سیاسی شعور سے جوڑتی ہے۔ کیونکہ قومیں محض جغرافیہ سے نہیں بنتیں، وہ یادداشت، مزاحمت، اخلاقی اصول اور اجتماعی وقار سے جنم لیتی ہیں۔

7 دسمبر 1967 کو تاریخی مقام حان بند پر لڑی گئی اس اجتماعی وقار کی جنگ کوہِ سلیمان کی سیاسی و مزاحمتی تاریخ کا وہ سنہری باب ہے جس نے نہ صرف کوہِ سلیمان کے نوجوانوں کو محض مزاحمتی تحریک کا حصہ بنایا، بلکہ انہیں سیاسی قابلیت عطا کی۔

اس تحریر کا مقصد جنگی تاریخ بتانا نہیں بلکہ اس عظیم شخصیت پر ہے جنہوں نے اس جنگ کو لیڈ کیا۔ وہ 4 ستمبر 2025 کو کینسر سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے وصال پر بندر کی چوٹی نے اپنا سر نگوں کیا۔ ان کے بچھڑنے پر یہ الفاظ زبان سے نکلتے ہیں:
“کوہِ سلیمان یتیم ہوگیا”

ان الفاظ میں ایک درد سمایا ہوا ہے، بے بسی کا، بے سروسامانی کا، سرپرستی کا۔

ماسٹر وحید بزدار ایک ثابت قدم رہنما تھے جو اپنے نظریات پر اٹل تھے۔ ایسے عظیم شخصیت کے بچھڑنے سے ان کا خاندان متاثر نہیں ہے بلکہ پورا سماج افسردہ ہے۔ ماسٹر صاحب کوہِ سلیمان میں مزاحمت کی چوٹی تھے۔ ان کی وفات سے ایک خلا پیدا ہوا۔

آج جب ہم ماسٹر وحید اور شہدائے کوہِ سلیمان کی ہیروئک زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی؛ وہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونے والی اخلاقی و فکری وراثت ہے۔

ان کی ہی مرہونِ منت ہے کہ آج کوہِ سلیمان کی جدید مزاحمت اب سنگلاخ چٹانوں میں نہیں بلکہ قلم، دلیل، تحقیق، تنظیم، میڈیا اور عالمی بیانیے میں بھی اپنا نقش ثبت کر رہی ہے۔

ماسٹر وحید ایک کمانڈر نہیں تھے۔ وہ ایک نظریاتی رہنما، ایک دانشور، ایک شفیق استاد، ایک منطقی مفکر تھے۔ اور یہیں سے ان کی سوچ کا خوبصورت پہلو سامنے آتا ہے۔ تو شاید سب سے اہم ہے کہ وہ ایک دور اندیش حکمت عملی کے ماہر تھے۔ وہ حال میں جینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی بنیادیں بنا رہے تھے۔

وہ نوجوانوں کے ساتھ جڑنے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کوہِ سلیمان کے نوجوانوں کو اتنا باشعور اور منظم کیا جائے کہ وہ خود یہاں ایک تحریک کی بنیاد رکھ کر اسے چلائیں۔ ان کا ماننا تھا کہ نوجوانوں کو اس مزاحمتی تحریک کا حصہ بنائے بغیر کوئی بھی تحریک کامیابی کی طرف نہیں چل سکتی۔ ان کی یہی سوچ محض ایک نظریاتی سوچ سے نکل کر حقیقت کی عکاسی کرتی تھی۔

ماسٹر صاحب ایک انقلابی دانشور ہونے کے ساتھ ایک حقیقی معلم تھے۔ یقیناً وہ اکیڈمی تھے—ایک جیتا جاگتا، چلتا پھرتا ادارہ۔ ان کے ساتھ بیٹھنا، ان سے بات کرنا، انہیں سننا حتیٰ کہ ان کے عمل کو دیکھنا بھی ایک سیکھنے کا عمل تھا۔ ان کی زندگی کا وہ حصہ جو تدریس (اسکول) سے جڑا رہا وہ بھی بے مثال ہے۔ وہ زندگی کے آخری دنوں تک نوجوانوں کو سکھاتے رہے۔

ماسٹر صاحب کی شخصیت ایک میگنٹزم تھی کہ نوجوان ان کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے۔ وہ نوجوانوں کو سیاسی نعرے نہیں سکھاتے تھے بلکہ انہیں سوچنا سکھاتے تھے، تجزیہ کرنا سکھاتے تھے اور تاریخ سے سبق سیکھنا سکھاتے تھے۔ ان کی تمام باتیں دلیل پر مبنی تھیں۔

سیاسی طور پر مشکل وقتوں میں نوجوان ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ وہ امید کی کرن تھے جو نوجوانوں کو حکمت عملی کے ساتھ امید کا درس دیتے تھے۔ یقیناً ماسٹر صاحب ایک کرشماتی انسان تھے۔

یہ کسی بھی تحریک کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہوتا ہے کہ جب آپ کا سب سے تجربہ کار اور بصیرت رکھنے والا رہنما سفر کے بیچ میں بچھڑ جائے۔

آپ کے رخصت ہونے کے غم میں بندر اور حان بند کے مقام نہیں بلکہ پورا گلزمین نے غم کا چادر اوڑھ لیا۔ آپ کا فکر اور فلسفہ آپ کے بچھڑنے سے ختم ہونے کی بجائے نوجوانوں کا فکر اور فلسفہ بن گیا۔ آپ کے عظیم فکری شاگرد بلوچستان میں بلوچ جہد کاروں کے ساتھ مسلح جدوجہد کا حصہ ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ، باشعور نوجوان اپنی جانیں کا نظرانہ اس عظیم حکمت عملی کی بنا پر پیش کررہے ہیں جو انہوں نے آپ سے سیکھی تھی۔ آج فیض جان اور رشید بزدار کی قربانی ہمارے لیے باعثِ فخر ہونے کے ساتھ مشعلِ راہ ہے۔

مزاحمت محض ایک جنگ کا نام نہیں بلکہ یہ وقار، شعور اور اجتماعی ذمہ داری کا سفر ہے۔ انسان کی فکری آزادی اور اپنے وقار کی حفاظت کا ایک لازوال فلسفہ ہے۔

شہدائے کوہِ سلیمان ایک دائمی مثال ہیں کہ کوہِ سلیمان کی مٹی صرف رہنماؤں کو جنم نہیں دیتی بلکہ یہ فکر، وقار اور آزادی کے سپاہی پیدا کرتی ہے۔ یہی ماسٹر وحید کا حقیقی اثر اور کوہِ سلیمان کی دائمی پہچان ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔