نصیر آباد کے گمبھیر مسائل، حل صرف عوام کے پاس
تحریر: سنگت سید
دی بلوچستان پوسٹ
جو میں سچ کہوں تو برا لگے، دلیل دوں تو ذلیل ہوجاؤں!
میں ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جس کا نام نصیر آباد ہے، جہاں بدامنی، لوٹ مار، ڈکیتی اور چوری اپنے عروج پر ہیں۔ جہاں کچھ نہیں بس غریب عوام اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔ یہاں دور دور تک قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اس ملک میں قانون بس غریب اور سچ بولنے والوں کے لیے ہے۔ جس کے ساتھ طاقت ہے ریاست اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ خود طاقتور ہے۔ جب اقتدار اور طاقتور سے سوال کرو گے تو مختلف طریقوں سے آپ کو خاموش کیا جائے گا۔ وہ کون کون سے طریقے ہیں، یہ سب کو مجھ سے بہتر معلوم ہے۔
نصیر آباد میں کسان، دکاندار اور عام عوام سڑکوں پر مارے جاتے ہیں۔ ان کو لوٹا جاتا ہے، مزاحمت کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ آخر کب تک ایسا ہوگا؟ اس علاقے میں کیوں کسی میر، سردار، عہدے دار یا ایم پی اے کو لوٹا نہیں جاتا؟ کیا چور کو معلوم نہیں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں یا ان کے پاس کوئی مہنگی چیز نہیں؟ آج تک ان کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا چوروں نے کبھی انہیں مارا یا قتل کیا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے؟
سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیوں؟ کب تک خاموش رہو گے؟ ہر فرد قوت رکھتا ہے۔
عوام کو چاہیے کہ اپنی طاقت کو سمجھیں اور اپنی آواز بلند کریں ان کے خلاف جو آپ کے پیسوں سے چلتے ہیں اور آپ کے باپ، بھائی اور بیٹے کو قتل کرتے ہیں، اور پھر درباری صحافی سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ فلاح سیاسی و سماجی میر سردار نے اس قتل کی مزاحمت کی ہے۔
ہماری انتظامیہ ابھی تک سو رہی ہے۔ حالات اس کے سامنے ہیں، سب کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ ہر وقت ہم لاشیں اٹھاتے ہیں۔ ہمارا پیسہ چور لے جاتے ہیں، چور ہمیں قتل کرتے ہیں اور چند منٹ کے لیے روڈ بند ہو جاتا ہے۔ پھر ڈی سی، اے سی، ایس پی اور ایس ایچ او آ کر کہتے ہیں کہ ہم قاتلوں اور چوروں کو پکڑ لیں گے، بس یہی یقین دہانی کرواتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان سب افسروں کو معلوم ہے کہ کون چور ہے، کون قاتل ہے اور کون ملوث ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ انہیں میں علاقے کے چور ڈاکوں اور قاتل بھی نکلیں گے۔ سب کو سب معلوم ہے کیونکہ کافی حد تک یہ لوگ خود ملوث ہیں پھر وہی بات، پیسے اور طاقت کے سامنے سب ختم ہو جاتا ہے۔
پولیس دن کو کتنا بھتہ لیتی ہے، یہ مجھے اور آپ سب کو بہتر معلوم ہے۔
اس میں میرا اور ہم سب کا قصور ہے کیونکہ ہم خاموش ہیں۔ اپنے حق کے بارے میں نہ سوچتے ہیں نہ بولتے ہیں۔ نا جانے کیوں، وجہ بھی معلوم نہیں، شاید اس لیے کہ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ روز کا معمول ہے، اسی طرح ہونا ہے۔ بس سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر فرد اپنی قوت سے واقف نہیں۔ عوام کے پاس وہ طاقت ہے جو کسی کے پاس نہیں، لیکن عوام خود ان کے غلام بنے ہوئے ہیں جن کو عوام اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں، پھر وہی لیڈر، وزیر، میر اور سردار عوام کو لوٹتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔
علاقے کے غیور عوام سے میری دست بستہ التماس ہے کہ اٹھو، آواز اٹھاؤ، مزاحمت کرو ان لٹیروں، لوٹ مار کرنے والوں اور چوروں کے خلاف جو عوام کے گھروں میں آگ لگاتے ہیں، جو عوام کو لوٹتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔
صد افسوس کہ ہمارے صحافی حضرات حقیقت کو سوشل میڈیا پر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ بھی کسی طاقت سے ڈرتے ہیں یا کچھ اور وجہ ہے۔ صحافت کا مقصد سچ کو سامنے لانا ہے، لیکن افسوس کہ نصیر آباد کے بہت سے صحافی اس ذمہ داری سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ دور ہوگئے ہیں۔ جب صحافی اپنی پسند، نظریات، ڈر یا مفادات کو سچ پر ترجیح دیتے ہیں تو وہ اپنے پیشے کو کمزور کرتے ہیں۔
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ کچھ لوگ خبر کے نام پر وہی بات آگے بڑھاتے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہو اور جو صاحب لوگوں کے لیے مناسب ہو نہ کہ وہ جو حقیقت ہو۔ اس طرح کی جانبداری صحافت نہیں بلکہ مصلحت کا کھیل بن جاتی ہے۔ صحافی اگر پہلے انسان اور پھر سچائی کا ساتھی نہیں بنتا تو چاہے وہ کتنا بڑا نام ہو، اس کا کردار قابل بھروسہ نہیں رہتا پھر وہ ایک ضمیر فروش صحافی کہلاتا ہے۔
نصیر آباد بھی بلوچستان کی دیگر شہروں کی طرح مسائل کا گڑھ بن چکا ہے اور ان مسائل کا حل عوام کے ساتھ ہے کہ وہ اٹھیں، مزاحمت کریں بولیں اور بولنا سیکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































