آزادی کی باز گشت
تحریر: وطن زاد
دی بلوچستان پوسٹ
حالیہ بلوچ نوجوان نسل فکر، شعور و علم کے میدان میں ایک انقلاب لا چکے ہیں جس کا نتیجہ آپ دشمن ریاست کی خوفزدہ آنکھوں میں بہ خوبی دیکھ سکتے ہیں۔ اب جنگی مزاحمت کروٹ بدل چکی ہے جو ہاتھ قلم اٹھا کر آنے والی نسلوں کے لیے ظلم کی داستانیں لکھ رہے تھے وہ اب بندوق اٹھا کر وطن کی پاک فضاؤں میں آنے والے نسلوں کی قومی بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو رہے ہیں۔
اس استعماری ریاست کے زیر تسلط نہ ہمیں پر امن طور پر سیاسی درسگاہیں چلانے کا حق حاصل ہے، نہ ہی پر امن مزاحمت کا۔ ہماری کتابیں ہم سے چھینی جا رہی ہیں ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے اب مجبوراً خفیہ مقامات کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔ نوجوان نسل مایوسی، تنگ دستی، مفلسی اپنے ہی سرزمین پر قیدی کے حیثیت سے زندگی جی جی کر تنگ آ چکے ہیں انفرادی طور پر اب ہر بلوچ وطن پرست پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنے دل میں ان ظالموں کے خلاف اک آتش فشاں ابال کر رکھے اور جنگ آزادی کا حصہ بنے۔ ماضی کی طرف واپس مڑ کر دیکھنے اور ماضی کے زخموں کو کھریدنے کا اب وقت نہیں رہا، جنگی مزاحمت اب ایک برقی رفتار اختیار کر چکا ہے بہت جلد اب ہماری نئی نسل فکر کی دہلیز پر پہنچ کر اپنے حقیقی فرائض سے آشنا ہوں گی۔
ہر بلوچ فرزند کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا بھر میں جہاں کئی پر بلوچ باسی موجود ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہماری جنگِ آزادی کا حصہ ہے۔ یہ جنگ اب طبقاتی نہیں رہی بلکہ ہمارا اہم قومی فریضہ بن چکا ہے۔ آج محاذ پہاڑوں تک معدود نہیں بلکہ ہمارے گھروں تک آ پہنچی ہے ہمیں نظریاتی و فکری طور پر اک گوریلا کے شکل میں خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ پنجابی فوج کسی دور میں ہمیں نظریاتی بنیادوں پر عقوبت خانوں میں قید کرتا تھا۔ آج وہ بلوچ کو شناخت کی بنیاد پر قتل کر رہا ہے۔ بلوچ قوم کی نسل کشی کئی دہائیوں سے جاری ہے مگر اب اسے باقاعدہ طور پر عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، پہلے ذہنی غلامی میں مبتلا کرکے وہ نوجوانوں کو جنگ آزادی سے مایوس کرتے ہیں بعد ازاں اپنے پالے ہوئے دلالوں کے ذریعے سرکاری دفاتر، ہوٹلوں، اور چائے کے ٹیلوں پر ہمارے نوجوانوں میں خوف پہھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ اگر اپنے اردگرد کا ماحول دیکھیں تو معاشرے میں آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو آپ کو استعماری بدکردار فوج کے طاقت سے ڈرانے یا پھر متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے اگر آپ تاریخی حوالے سے اسی فوج کا کردار پڑھیں تو آپ پر ان بے جا باتوں کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔
جب آپ شعوری سطح پر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ بلوچ اور بلوچ کی جاری مزاحمتی تحریک کو دنیا بھر کے انقلابیوں سے بہت مختلف پاتے ہیں۔ ہمیشہ دشمن ہمیں تاریخ سے کچھ عجیب و غریب مثالیں اٹھا کر الجھنوں کا شکار بنانا چاہتا ہے مگر وہ قطعی اس بات سے واقف نہیں کہ بلوچ اب شعوری سطح پر اک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر چکا ہے جو یقیناً بلوچستان کے سر ڈغار پر جاری ظلم و بربریت کا سدباب کرے گی۔
1971 کی لڑائی میں یہی فوج 93 ہزار پتلونیں اور بندوقیں چھوڑ کر ننگے واپس اپنے گھر لوٹے تھے۔ کارگل کی لڑائی میں اسی بزدل اور دھوکہ باز فوج نے اپنے 65 ہزار فوجیوں کی لاشوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جو آج تک سیاہ چین کے پہاڑوں میں بدبو پھیلائے ہوئے ہیں۔ میں یہاں کسی دوسرے ملک کی تعریف نہیں کر رہا۔ مگر دنیا کی تاریخ میں آپ کو ایسے بزدلی کی مثالیں نہیں ملیں گی جو یہاں ملتی ہیں۔
آپ کبھی بھی ریاستی میڈیا پر چلنے والے بے بنیاد بیانات یا پھر ریاستی تنخواہ خوروں کے مایوس کن باتوں پر یقین نہ کریں۔ آج پوری دنیا اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ بلوچ وسط ایشیا میں طاقت و مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے، پورے دنیا بھر میں انسانی آزادی یا پھر انقلاب سے محبت کرنے والے لوگوں کی نظر ہمارے تکنیکی جنگ پر ہے، وہ سب ہمارے فتح کے گیت گا رہے ہیں۔ آس پاس کے ممالک اپنی فلم انڈسٹریز کو عوامی توجہ دلانے واسطے بلوچ کے جنگِ آزادی پر فلمیں بنا رہے ہیں۔
ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ پوری دنیا کے باشعور قومیں ہم سے محبت کرنے لگی ہیں۔ پاکستانی فوج پر آئے روز مربوط حملے اور ہمارے تکنیکی جنگ سے ان کے دلوں میں انقلابی جنون پیدا ہو چکا ہے، اگر ہم کسی مجبوری، مفلسی یا پھر علم کی کمی کے وجہ سے کبھی کبھار مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری تحریک کمزور پڑ گئی ہے ہماری مایوسی یا پھر بے چارگی سے وطن زادوں کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے دلوں میں موجود خوف کے اثرات ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے لڑ کر ختم کرنی ہے اور یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں کہ مایوسی ہمیشہ ان دلوں میں گھر کر جاتی ہے جو نظریے کی ولایت سے محروم ہوں۔
جب آپ نظریاتی علمی و عملی طور پر اپنی جنگ آزادی کا حصہ بنتے ہیں تو پھر آپ یک دم سے اپنے اندر مختلف روحانی تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھیں گے۔ انسانی زندگی کا خوف، دنیا کی چاہت، جنت کی طلب یہ سب چیزیں آپ کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وطن سے محبت، سر ڈغار کی آزادی، قربان ہوتے وطن زاد، پہاڑوں سے بڑھکتی ہوئی آزادی کے نغمے آپ کو روحانی طور پر امر کر دیتے ہیں۔ آپ ان فدائیوں کے بارے میں پڑھنا شروع کریں گے جنہوں نے اس وطن کے لیے قربان ہونے کو اپنے لیے دنیا کا سب سے بڑا اعزاز سمجھا تھا، ان کی محبت آپ کو قدرے نظریاتی اور بہادر بنائے گی، جنہوں نے اپنے آج کو ہمارے آنے والے خوبصورت اور آزاد کل کے لیے قربان کیا۔
بلوچستان میں جاری جنگی مزاحمت پوری دنیا کے ایٹمی طاقتوں کو حیران کر چکا ہے اک طرف ایٹمی قوت، لاکھوں کی فوج، جدید ہتھیار، دوسری جانب پہاڑوں کے شہزادے جو مکمل طور پر جنگی مہارت سے لیس، وطن کا بیرک پہنے ہوئے ایسی طوفانی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس کی مماثلت آپ کو تاریخ کے انقلابی جنگوں میں کہیں نہیں ملتی۔
حالیہ چاغی کے علاقے نوکنڈی میں قابض استعماری فوج کے برگیڈ ہیڈ کوارٹرز پر (SOB) کا فدائی حملہ امریکہ اور چین جیسے سامراجی قوتوں کو واضح پیغام ہے کہ بلوچ سرزمین پر کسی بھی قسم کا بین الاقوامی انویسٹمنٹ محفوظ نہیں اور اس بات کا عالمی برادری کو بہ خوبی ادراک ہے کہ ریاست پاکستان اپنا رٹ مکمل طور پر بلوچ کی سرزمین پر کھو چکا ہے۔ نہ وہ اس کے لائق ہے کہ عالمی انویسٹر کمپنیوں کو بلوچ سرزمین پر تحفظ فراہم کرے یا پھر ان کے پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کی مدد کر سکے۔
بلوچ قوم نے بطور ملت ایک فکری جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ ہر بلوچ نوجوان پر واجب ہے کہ اپنے زاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ یہ ظالم، خونخوار اور درندہ صفت فوج صرف ظلم کر سکتی ہے مگر ہماری قومی جدِ آزادی کے عزم کو کبھی کمزور نہیں کر سکتی۔ ظلم کی فصیلیں یقیناً طویل ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے قومی جذبہ آزادی کے سامنے یہ رکاوٹ کچھ بھی نہیں۔ ہمیں اپنے قومی نظم کو مضبوط کرنا ہوگا، اور اپنی زندگی کی بہت ساری خوشیاں اس راستے میں قربان کرنی ہوں گی۔ یہ راہ آزمائشوں سے بھری ہے، مگر منزل اپنی تمام خوبصورتی کے ساتھ ہمارا استقبال کرنے کو بے چین ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































