نذیرِ رفتگاں – شہید نوید حمید کی پہلی برسی
تحریر: دل مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج نوید حمید کی شہادت کو ایک سال گزر چکا ہے، مگر اُس کی یاد، اُس کا درد، اُس کی خاموش مسکراہٹ اور اُس کی جدوجہد آج بھی اُسی طرح تازہ ہے۔ یہ ایک سال اُس کے اپنے لوگوں کے لیے، اُس کی فیملی کے لیے، اُس کے دوستوں کے لیے اور اُس خطے کے ہر شخص کے لیے بے حد بھاری رہا ہے۔
ایک سال گزر گیا مگر سوال وہی ہیں، زخم وہی ہیں اور انصاف آج بھی اُسی مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔
نوید کی موت نے بہت دلوں کو توڑا، بہت گھروں میں سوگ پھیلایا، اور لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسا خلا چھوڑ دیا جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔
اس کی صداؤں میں ہمیشہ ایک ہی بات تھی: “سچ بولو، ظلم کے خلاف کھڑے رہو، اور اپنے لوگوں کے لیے آواز بنو۔” اور شاید یہی آوازیں تھیں جنہیں خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔
آج اُس کی پہلی برسی پر یہ دکھ دوگنا ہو جاتا ہے کہ ایک طویل سال گزرنے کے باوجود، ابھی تک اس کے قاتل سامنے نہیں آئے، کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا اور انصاف اب بھی دروازے پر کھڑا انتظار کر رہا ہے۔
نوید کے چاہنے والوں کے دلوں میں صرف غم نہیں بلکہ ایک سوال بھی ہے: کب تک؟ کب تک اُن ماؤں کی آہیں یونہی بے اثر رہیں گی؟
کب تک اُن بہنوں کے آنسو یونہی بہتے رہیں گے؟ کب تک لوگوں کی لاشیں ملتی رہیں گی مگر ان کے قاتل پردوں کے پیچھے چھپے رہیں گے؟
نوید آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، مگر اس کا نام، اس کا کردار، اس کی ہمت اور اُس کا نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ وہ آج بھی ہر دل میں ایک چنگاری چھوڑے بیٹھا ہے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی چنگاری۔
اللہ اس کی مغفرت فرمائے، اس کے درجات بلند کرے، اور اس کے گھر والوں کو صبر دے اور دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے جب اس کی روح کو بھی سکون ملے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































