تربت میں جبری گمشدگی کے ایک واقعے کے خلاف لاپتہ نوجوان یحییٰ عبدالواحد کے اہلِ خانہ نے اُن کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کے روز تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یحیٰ کی بہن نے کہا کہ اُن کے بھائی کو 8 ستمبر 2025 کو حب چوکی کی بلوچ کالونی سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا تھا۔
اہلِ خانہ کے مطابق واقعے کو تین ماہ گزر چکے ہیں، مگر تاحال یحییٰ عبدالواحد کی حوالگی یا اُن کی صورتحال کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہی۔
یحییٰ کی بہن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور اُن کا خاندان بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہوا ہے۔ ان کے مطابق یحییٰ ولد عبدالواحد، سکنہ نظرآباد (تحصیل تمپ، ضلع کیچ)، گھر کے واحد کفیل تھے۔ والد کے انتقال کے بعد چار بہنوں نے اُن کی پرورش کی اور وہ محنت مزدوری کے ذریعے گھر کا خرچ چلاتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاستی اداروں کے پاس یحییٰ کے خلاف کسی طرح کے شواہد یا الزامات موجود ہیں تو انہیں آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔ ’’ہمارا بھائی بے قصور ہے۔ اگر اس کے خلاف کوئی الزام ہے تو ہمیں آگاہ کیا جائے، لیکن تین ماہ سے ہم لاعلمی اور کرب میں مبتلا ہیں۔
خاندان کے مطابق یحییٰ عبدالواحد کی بازیابی کے لیے وہ چار مرتبہ ڈپٹی کمشنر کیچ کو درخواستیں جمع کروا چکے ہیں، تاہم کسی سطح پر بھی انہیں تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
پریس کانفرنس میں اہلِ خانہ نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ان کی آواز حکام تک پہنچانے میں مدد کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجبوری کے باعث میڈیا کے سامنے آئے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ متعلقہ ادارے یحییٰ عبدالواحد کی فوری اور محفوظ بازیابی کے لیے اقدامات کریں گے۔


















































