صبح کی نوید (سدو آپریشنل بٹالین)
تحریر: دانیال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک خود مختار قوم کی حیثیت سے ایک خود مختار زندگی گزارنے کے لیے جنگ ضروری ہے۔ جنگ تاریخ کی مستقل چیزوں میں سے ایک ہے اور تہذیب، جمہوریت کے بڑھنے پر بھی اس میں کمی نہیں آئی۔ ریکارڈ شدہ تاریخ کے گزشتہ 3421 برسوں میں صرف 280 برس ایسے تھے جن میں جنگ نہ ہوئی۔ ہم نے جنگ کو موجودہ دور کی طرح نوع انسانی کے مقابلے میں فطری انتخاب کی مطلق صورت تسلیم کیا ہے۔
تیرا اکلتیس نے کہا تھا کہ “جنگ یا مقابلہ تمام چیزوں کی ماں ہے”۔ یہ نظریات، ایجادات، اداروں اور ریاستوں کا جاندار ماخذ ہے۔ امن ایک غیر مستحکم حالت توازن ہے، جسے صرف تسلیم شدہ بالادستی یا مساوی طاقت کے ذریعے ہی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اجتماعی آزادی کو محفوظ بنا لینے تک انفرادی آزادی کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے۔ زندگی خلقی طور پر ابدیت کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتی، موت فطری چیز ہے اور مدت پوری ہونے پر ضرور آتی ہے۔ ایک بالغ ذہن اپنی موت کا وقت اور تعین خود طے کر سکتا ہے۔ 30 نومبر دنیا کے لیے ایک عام اور معمول کے مطابق رات ہو سکتی ہے، مگر بلوچ عسکری قوت اور بلوچ سرزمین کے لیے ایک صبح کی نوید ہے اور دشمن کے لیے لرزہ خیز تاریک رات ہے۔
ایک نیا باب “سدو آپریشنل بٹالین” جسے ماما سدو مری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ماما سدو مری نے اپنی تمام زندگی اور اپنے فرزند تک سرزمینِ بلوچستان پر قربان کر دیے۔ ماما سدو مری نے عمل سے اپنی جدوجہد کو ثابت کیا۔ مسلح جدوجہد کا ہر اصولی نظریہ کسی نہ کسی حقیقی مسلح جدوجہد سے ہی نکلتا ہے۔ ہر مرتبہ عمل پہلے آتا ہے، اصول بعد میں نکلتے ہیں، لیکن یہ خیال کر لینا بھی غلط ہوگا کہ نظریہ محض واقعاتی نوعیت کا ہو سکتا ہے اور ہر چیز خواہ اپنے تجربے سے ہی نکلتی ہے، کیونکہ ہر جدوجہد میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو باقی تجربوں میں بھی مشترک ملیں گی۔ اور کچھ ایسی جو وہ جدوجہد عمومی تجربے کی بنا پر خود اپنے لیے تخلیق کرتی ہے۔ بالکل جیسے آرٹ میں ہوتا ہے، پیکاسو بہت عظیم اور نوئلہ فنکار ہے لیکن اپنے سے پہلے آنے والے فنکاروں کی پیداوار بھی ہے۔ مسلح جدوجہد کا معاملہ بھی یہی ہے۔ سدو آپریشنل بٹالین ایک نئی فکر ہے، بلوچ مسلح تنظیم میں ایک نیا باب ہے، لیکن اس کی نشونما بہت پہلے ماما سدو مری کے نظریے کے سائے تلے ہو رہی تھی۔ وطن پرستوں نے سب سے پہلے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا، پہاڑوں میں گوریلا تکنیک سے اپنی زمین کا دفاع لازم بنایا، پھر آہستہ آہستہ شہروں میں جنگ کو منتقل کیا اور آج ایک منظم طریقے سے دشمن کے قلعوں میں گھس کر اس پر کاری ضربیں لگا رہے ہیں۔
آشوبی سرمچار “سدو آپریشنل بٹالین” کی پرورش بھی شہیدوں کے خون سے کر رہے تھے۔ اس بات کا اندازہ آپ دو دن کی طویل جنگ سے لگا سکتے ہیں کہ سوب کے سرمچار نہ صرف اجتماعی شعور سے لیس تھے بلکہ وہ ایک ویل ٹرینڈ آرمی کے سپاہی بھی تھے۔ سوب کے سرمچار صبح کی نوید لے کر نوکنڈی کیمپ پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کی ابتدا زرینہ رفیق کرتی ہے اور بارود سے بھری گاڑی نوکنڈی کیمپ کے مین گیٹ سے ٹکراتی ہے، جس کے بعد باقی ساتھیوں کو کیمپ میں داخل ہونے کے لیے راستہ مل جاتا ہے۔ اور سوب کے سرمچار دو دن تک دشمن کے زمینی اور فضائی حملوں کا نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ کئی درجن فوجی ہلاک و زخمی کر دیتے ہیں۔ سوب کے سرمچاروں نے دو دن تک کیمپ میں دشمن کا مقابلہ کیا اور دشمن پر لرزہ طاری کیے رکھا۔
میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ موت اٹل حقیقت ہے، مگر کب کیسے آنی ہے اس کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح سوب کے سرمچاروں نے اپنی موت (گُڈی تیر) فلسفہ آخری گولی کے نام لکھ دی تھی۔ جو مرنے آئے ہیں بھلا انہیں کون مار سکتا ہے؟ ایسے وطن پرستوں کو شکست نہیں دی جا سکتی جو اپنی موت کا فیصلہ خود کر کے آتے ہیں۔
سوب کے سرمچاروں نے نہ صرف میدان جنگ بلکہ نفسیاتی طور پر بھی دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ اب دشمن خود کو کیمپوں اور فوجی قلعوں میں بھی غیر محفوظ تصور کرے گا۔ جو دیواریں ایک وقت میں دشمن کی حفاظت کی ضامن تھیں آج وہی دشمن کے لیے غیر محفوظ ہیں۔ آزادی ہمارے حصے میں جلد یا بدیر ضرور آئے گی۔ ہمارے ساتھی جنگ آزادی میں امر ہیں جن کا فلسفہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اور شہیدوں کا خون فکر و فلسفہ ہمارے لیے نئی امید ہے، ایک نوید ہے کہ آخری جنگ ہم ہی جیتیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































