بھیڑوں کی کھال میں بھیڑیا
تحریر: حمّل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان، جو کہ سیاسی طور پر ایک پسماندہ اور نوآبادیاتی طرز حکمرانی کا شکار خطہ ہے، ریاستی ادارے، بالخصوص فرنٹیئر کور (FC)، پولیس اور انتظامیہ، تاریخی طور پر بلوچ عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور سیاسی استحصال میں ملوث رہے ہیں۔ ایسے پس منظر میں بلوچستان کے شہر قلات میں حالیہ دنوں ایف سی کی طرف سے بلوچی لباس اور دستار پہن کر سرکاری اداروں میں ثقافتی پروگرامز کا انعقاد کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
حال ہی میں قلات میں پیش آنے والا واقعہ اس یلغار کی واضح مثال ہے۔ قلات انٹر گرلز کالج میں ایف سی کرنل، پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ نے جاکر بلوچ ثقافت کے نام پر ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں بچیوں کو ریاستی افسران کے استقبال، تصاویر اور “ثقافتی رنگ” میں مصروف کیا گیا۔ اگلے ہی دن لڑکوں کے ایک علیحدہ پروگرام میں اسی ایف سی کرنل کو بلوچ دستار پہنا کر بلوچ ثقافت کا خیرمقدم کیا گیا۔
یاد رہے یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب قلات سمیت پورے بلوچستان میں سیاسی بیداری کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے۔ نوجوان، ادیب، طلباء اور عام عوام اپنے قومی حقوق، شناخت اور آزادی پر بات کر رہے ہیں۔ مگر انہی نوجوانوں کو غیر سیاسی کرنے، ریاستی بیانیے کے قریب لانے اور ان کی فکری خودمختاری چھیننے کے لیے “ثقافت” کا استعمال ایک خطرناک رجحان بنتا جا رہا ہے۔
یہ عمل بظاہر “ثقافتی ہم آہنگی” یا “قومی یکجہتی” کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک گہری نوآبادیاتی حکمتِ عملی ہے، جس کا مقصد نہ صرف بلوچ عوام کی اصل شناخت کو غیر سیاسی، غیر محفوظ اور کمزور بنانا ہے، بلکہ نوجوان نسل کو ریاستی بیانیے کی طرف بھی مائل کرنا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایف سی اہلکار جب بلوچ لباس پہن کر اسکولوں، کالجوں میں داخل ہوتے ہیں اور بچوں کو “ثقافتی تقریبات” میں مشغول کرتے ہیں، تو یہ صرف تفریح یا شناخت کا جشن نہیں ہوتا — بلکہ یہ نفسیاتی اور نظریاتی کنٹرول کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ایسے ریاستی حربوں کا مقصد یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ بلوچ ثقافت صرف “لباس، موسیقی اور رقص” تک محدود ہے، جبکہ سیاسی شعور، آزادی کی جدوجہد اور استحصال کے خلاف مزاحمت اس ثقافت کا حصہ نہیں!!!
یہ اقدامات بلوچ عوام کو ایک ایسی قوم بنانے کی کوشش ہے جو صرف مظاہر پر خوش ہوکر اپنے اجتماعی سیاسی شعور سے محروم ہو رہی ہیں۔ یہ کلچرائزیشن درحقیقت ڈی پولیٹیسائزیشن ہے — یعنی قوم کو سیاست، مزاحمت اور سوال کرنے کے حق سے محروم کرنے کا ایک جدید ہتھیار- سامراجی حربہ!!!
ریاست کو معلوم ہے کہ بلوچ عوام کی زمین پر اس کی موجودگی غیر فطری ہے۔ اس لیے وہ گولی کے ساتھ ساتھ اب ‘گیت’ کے ذریعے بھی دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر یہ سب کچھ صرف ایک چال ہے، جس کا اصل مقصد قبضے کو نرم لہجے میں جاری رکھنا ہے۔
ایسے میں والدین، اساتذہ، نوجوان اور باشعور حلقوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان “ثقافتی حملوں” کو پہچانیں، اور ریاست کی اس دراندازی کے خلاف شعور اجاگر کریں۔ بلوچ ثقافت کو مزاحمت کا ہتھیار بنانا ہوگا، نہ کہ ریاستی بیانیے کا مہرہ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔












































