وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ: نیشنل گارڈز کی خاتون اہلکار دم توڑ گئیں

0

واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کو وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کے واقعے میں شدید زخمی ہونے والی نیشنل گارڈز کی خاتون اہلکار دم توڑ گئی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو امریکی سروس کے ارکان کے ساتھ تھینکس گیونگ کال کے دوران 20 سالہ سارہ بیکسٹارم کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ انتہائی قابلِ احترام، نوجوان، شاندار شخصیت کی مالک تھیں۔۔ جو اب ہمارے ساتھ نہیں رہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے ’سی بی ایس‘ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے سارہ کے اہلخانہ سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔

اس سے قبل امریکہ میں حکام نے وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے دو اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کرنے والے 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ حملہ آور ماضی میں افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلیف نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مشتبہ شوٹر (رحمان اللہ) کو امریکہ آنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کیونکہ وہ ماضی میں امریکی حکومت کے لیے کام کرتے رہے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ستمبر 2021 میں شوٹر کو ماضی میں اس کے امریکہ، بشمول سی آئی اے، کے لیے کیے گئے کام کی وجہ سے امریکہ لایا گیا تھا۔

جان ریٹکلیف نے کہا کہ ’افغانستان سے بائیڈن کے تباہ کن انخلا کے تناظر میں، بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ شوٹر کو ستمبر2021 میں امریکہ لانے کا یہ جواز پیش کیا کہ اُس نے امریکی حکومت، بشمول سی آئی اے کے ساتھ، قندھار میں ایک پارٹنر فورس کے رُکن کے طور پر کام کیا تھا۔‘

ایف بی آئی حکام نے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والی نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کی شناخت 20 سالہ سارہ بیکسٹارم اور 24 سالہ اینڈریو وولف کے طور پر کی تھی۔

اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل نے کہا کہ وہ حملہ آور کی رہائش گاہ تک بھی پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’بہت سے الیکٹرانک آلات‘ بشمول موبائل فونز، لیب ٹاپس اور آئی پیڈز کو قبضے میں لیا گیا اور ان کے تجزیے کا عمل جاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکی حکام شواہد کی روشنی میں امریکہ اور دنیا بھر میں تفتیش کی غرض سے ہر مقام تک جائیں گے۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران یو ایس اٹارنی جینین پیرو نے بتایا کہ حملہ آور نے کارروائی کے لیے 257 سمتھ اینڈ ویسن ریوالور کا استعمال کیا۔ اس حملے کا محرک کیا تھا؟ حکام کا کہنا ہے کہ یہ قبل از وقت ہو گا اور اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ حملہ آور واشنگٹن میں اپنی اہلیہ اور ’ہمارے خیال میں‘ پانچ بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔

اس سے قبل امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے مشتبہ حملہ آور کی شناخت 29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے طور پر کی۔

سی بی ایس نیوز کے مطابق مشتبہ حملہ آور نیشنل گارڈ کے ایک اہلکاروں کی جوابی کارروائی کے بعد زخمی حالت میں حراست میں لیے گئے اور اس وقت وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مشتبہ حملہ آور کو ’ایک غیر ملکی جو افغانستان ، زمین پر جہنم، سے ہمارے ملک میں داخل ہوا‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے اسے ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا۔

سی بی ایس نیوز کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو ’انسانی ہمدردی کی بنیادوں‘ پر امریکہ لایا گیا تھا۔ ’آپریشن الائیز ویلکم‘ وہ اہم قانونی طریقہ کار تھا جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ نے اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سینکڑوں افغان شہریوں کے ملک سے انخلا کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر افراد وہ تھے جنھوں نے گذشتہ 20 سال کے دوران افغانستان میں امریکہ اور اس کی افواج کی کسی نہ کسی صورت میں مدد کی تھی اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد انھیں ممکنہ خطرات لاحق تھے۔

ڈی سی میٹروپولیٹن پولیس کے افسر جیف گیرول نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’تنہا حملہ آور‘ نے فائرآرم (بندوق) اٹھایا اور ماس ٹرانزٹ سٹیشن پر گشت کرنے والے نیشنل گارڈ کے تین اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔

سی بی ایس نیوز کو ذرائع نے بتایا کہ حملہ آور کی بندوق میں گولیوں کے چار راؤنڈ تھے اور ایک خاتون افسر اس کے حملے کا پہلا نشانہ بنیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق خاتون اہلکار کو دو گولیاں لگیں اور وہ فی الفور گر گئی اور حملہ آور نے خاتون کی بندوق اٹھائی اور اس سے فائرنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ کے شہریت اور امیگریشن سروسز کے محکمے نے ’سکیورٹی اور جانچ کے پروٹوکولز‘ کے جائزے تک افغان شہریوں کی امیگریشن کی تمام درخواستوں پر کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایکس پر جاری ایک بیان میں محکمے کا کہنا ہے کہ اپنے ملک اور امریکی عوام کی حفاظت اُن کا واحد مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا۔