بی ایس او کی 58ویں یومِ تاسیس، بلوچ قومی تاریخ میں بی ایس او کا کردار اور تاریخی پس منظر
تحریر: بابل ملک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
1920 سے بلوچ قوم پرستی کی بنیاد پڑنے کے بعد بلوچ نوجوانوں کو ایسے فورم کی ضرورت محسوس ہوئی جہاں سے وہ قومی و علاقائی حوالے سے سامراج اور بالادست استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کر سکیں۔ بلوچوں نے جب یہ محسوس کیا کہ ایک تنظیم کی ضرورت ہے جو بلوچ نوجوانوں کو منظم کرے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ابھرا کہ ایک ایسی طلبہ تنظیم ہو جو نہ صرف بلوچ طلبہ کی نمائندگی کرے بلکہ قومی سطح پر وطن کا دفاع بھی کر سکے۔ اسی پس منظر میں بی ایس او کی بنیاد رکھی گئی۔
بی ایس او کے قیام کے بعد سے آج تک بی ایس او بلوچ قومی تحریک میں ایک یادگار کے طور پر یاد کی جاتی ہے، ایک ایسی تنظیم کے طور پر جس نے نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ عملی طور پر اس وطن کے جنگی اور سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کیا۔
سن 1970 سے لے کر 2013 تک بی ایس او کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ خار دار اور سخت کٹھن حالات سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے، جہاں بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ملتی رہیں، جہاں بلوچ نوجوان لاپتہ کیے گئے، جہاں وہ اپنے تعلیمی اور قومی حقوق سے محروم رہے، جہاں وہ بیروزگاری اور بے توقیری کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔ دوسری جانب اگر اس وطن پر ہونے والے مظالم پر نظر ڈالی جائے تو ان مظالم نے ظالم اور اس کے کردار کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ وہ کس حد تک بے لگام ہو چکا ہے۔
یقیناً بلوچ نسل کشی، بلوچ سرزمین کے وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار، آئے روز نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں، استحصالی منصوبے، سب براہِ راست بلوچ استحصال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ شروعات سوئی سے کی گئیں، پھر کوئلے کی کانوں کے ذخائر ملے، پھر سونے کے ذخائر، پھر پانی و خشکی کے وسائل، اور آخر میں بلوچستان کے لوگ خود ایک ہدف بن گئے اور اسی طرح وہ بلوچستان پر مکمل طور پر قابض ہوتا گیا۔
اب صورتِ حال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ابتدائی دور میں صرف بلوچ سرزمین استعمال ہو رہی تھی، بعد ازاں بلوچ نوجوانوں کو کرائے پر رکھ کر دوسرے ملکوں کو بھیجا جانے لگا تاکہ وہ دیگر قوموں کی جنگیں لڑیں اور اس کا معاوضہ پاکستان کو ملے۔ بلوچ نوجوانوں کو قتل ہونے کے لیے مسقط، کویت، قطر اور مختلف عرب ممالک بھیجا گیا جہاں کئی بلوچ نوجوان شہید ہوئے۔
اس پر شہید حمید نے سخت موقف اپناتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور بلوچ قوم کے سامنے یہ موقف واضح کر دیا کہ بلوچ نوجوان کسی بھی قوم کے جنگی عزائم میں اس کے ساتھ نہیں دے سکتے، نہ ہی بلوچ قوم کسی کے آلہ کار کے طور پر جا کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر سکتی ہے، اور نہ ہی بلوچ قوم کی جان اتنی سستی ہے کہ کوئی پنجابی استعمار اٹھ کر اسے کرائے پر لے اور قتل کروائے۔
کئی دہائیوں پر محیط اس جدوجہد پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اس میں قربانیوں کی طویل داستان موجود ہے۔ جب بلوچ قوم شہید فدا اور شہید فدا کے فکر و فلسفہ کو دیکھتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ بی ایس او بلوچ نوجوانوں کی وہ یادگار تنظیم رہی ہے جس نے براہِ راست بلوچ قومی تحریک میں بندوق اٹھا کر بھی جدوجہد کی اور کتاب اٹھا کر بھی۔ اس نے استعماری اور استحصالی قوتوں کے خلاف برسرِ پیکار ہو کر اس تحریک اور اس وطن کے لیے ہمیشہ قربانیاں دیں اور تاریخ میں امر ہو گئے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ نوجوانوں کا مضبوط سیاسی قلعہ اور بلوچ قوم کا قومی اثاثہ ہے جو اپنی 58 سالہ مختصر تاریخی منظرنامے میں بلوچ طلبہ کو فطری، شعوری اور منظم سوچ فراہم کرتی رہی ہے۔ اپنے قیام 1967 سے لے کر آج تک بی ایس او بلوچ قومی سیاست میں تعلیم سمیت سیاسی، فکری و نظریاتی جدوجہد میں ایک اعلیٰ درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بی ایس او نے بلوچ قوم کی تاریخی ڈیموگرافی، ساحل و وسائل کے دفاع، قومی ننگ و ناموس کے تحفظ اور استحصالی قوتوں کے سامنے تاریخی جدوجہد میں ہمیشہ ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا ہے اور اپنے وجود سے لے کر آج تک بلوچ قوم کو قومی سطح کے رہنما اور لیڈر فراہم کیے ہیں۔ اگر بی ایس او کو قومی لیڈر پیدا کرنے کی نرسری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں تو بی ایس او نے ایسے سینکڑوں قومی سپوت پیدا کیے جو آج بھی بلوچ قومی مزاحمتی تاریخ کا حصہ اور زینت بن چکے ہیں۔ جن میں شہید فدا بلوچ، شہید حمید بلوچ جیسے عظیم رہنما ہمارے قومی تاریخ کے صفِ اوّل کے شہداء ہیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ ان کی سوچ، نظریہ اور فکر تازیست بلوچ قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ بی ایس او ایک طلبہ تنظیم کی حیثیت سے نہ صرف طلبہ کے تعلیمی اور سیاسی حقوق کے لیے برسرِ پیکار ہے بلکہ ایک قومی تنظیم کی حیثیت سے بلوچ قوم کے لیے ہر پلیٹ فارم پر تاریخی جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے۔
بی ایس او نے بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں میں وہ اعلیٰ و منفرد مقام حاصل کیا ہے جو شاید اس خطے میں کسی دوسری طلبہ تنظیم یا جماعت نے حاصل کیا ہو۔ آج بی ایس او جیسی مقدس تنظیم کی جدوجہد ہی کی بدولت ہزاروں باشعور طلبہ و نوجوان ایک عظیم سوچ سے وابستہ ہیں۔ بی ایس او ہی نے ہمیں یہ شعور دیا ہے کہ بلوچ قوم ہر ظلم و ستم کے خلاف بلا خوف و خطر اپنا موقف کسی بھی پلیٹ فارم پر رکھ سکتی ہے اور رکھ رہی ہے۔ بی ایس او نہ صرف بلوچ نیشنلزم سے وابستہ قومی رہنما پیدا کر رہی ہے بلکہ اس خطے میں بی ایس او کے تربیت یافتہ سیاسی رہنماؤں کی ایک لمبی قطار اور طویل جدوجہد نظر آتی ہے۔
بی ایس او کے عام کارکن سے لے کر مرکزی چیئرمین تک، جن میں حبیب جالب بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، شہید فدا بلوچ، میر ایوب جتک، شہید حمید بلوچ، ڈاکٹر یاسین بلوچ، شہید ڈگار، شہید چیئرمین زبیر بلوچ تک شامل ہیں، سب نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کے لیے وقف کر دی تھی۔ آج انہی عظیم قومی ہیروز کی نظریاتی اور فکری تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ بلوچ قوم آج بھی سیاسی، فکری اور شعوری طور پر لیس ہے۔
26 نومبر کو بی ایس او کے یومِ تاسیس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اس نرسری اور تاریخی، فکری، نظریاتی و شعوری درسگاہ بی ایس او کے بنیادی روح و فلسفہ کے لیے جدوجہد اور قربانی دیں تاکہ ہماری تاریخ زندہ و جاوید رہے۔ اس سے پہلے بی ایس او کے قومی ہیروز نے اپنے خون اور خاک سے اس کی آبیاری کی ہے۔ آج بلوچستان اور بلوچ قومی خطے کو درپیش چیلنجز اور بالخصوص طلبہ کو درپیش تعلیمی و سیاسی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔
ایسی صورتِ حال میں، جہاں بلوچستان ہمیشہ سے ریاست کے ناروا سلوک، اقدامات اور پالیسیوں کا شکار رہا ہے اور گوناگوں مسائل کی زد میں رہا ہے، ظلم و جبر کے سائے میں زیرِ عتاب رہا ہے، وہاں ہزاروں بلوچ سیاسی کارکن لاپتہ کیے گئے، ہزاروں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں اور ہمارے تعلیمی ادارے کم اور چھاؤنیاں زیادہ دکھائی دینے لگیں۔ طلبہ و طالبات قلم کے بجائے بندوق کی نالی کے سائے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایسی فضا میں ریاست کے گماشتوں، کاسہ لیسوں اور استحصالی قوتوں کے خلاف صرف اور صرف بی ایس او کے پلیٹ فارم سے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بی ایس او کے یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے قومی شہداء و غازیوں سے یہ کمٹمنٹ کی جاتی ہے کہ ہم ان کی امانت، تنظیم بی ایس او کو ان کی جدوجہد کے عین مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔



















































