چاغی: تاریخی حقائق، پسماندگی اور ترقی کے امکانات – ارشاد شمیم

11

چاغی: تاریخی حقائق، پسماندگی اور ترقی کے امکانات

تحریر: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

“چاغی” بلوچستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کی دو سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ چاغی کو برطانوی دورِ حکومت میں سن 1903 میں باضابطہ طور پر (بطور چاغی ایجنسی) ضلع کا درجہ دیا گیا۔ یہ ضلع قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جہاں قیمتی معدنیات جیسے تانبا، سونا، کرومائیٹ، سنگِ مرمر وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ مگر ان وسائل کے باوجود چاغی آج بھی بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

چاغی کی پسماندگی کی کئی اہم وجوہات ہیں، جن میں سب سے پہلی وجہ معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔ چاغی کے اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور تعلیمی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ شرحِ خواندگی مردوں میں 33.36 فیصد جبکہ خواتین میں 19.52 فیصد ہے۔ یعنی چاغی میں ہر 100 مردوں میں سے صرف 33 پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں، جب کہ 100 خواتین میں سے صرف 19 خواندہ ہیں۔

اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی سہولیات کی کمی ہے۔ ہسپتال ناکافی ہیں اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی قلت ہے۔ دور دراز علاقوں کے لوگ علاج کے لیے کئی کلومیٹر سفر طے کر کے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

ضلع چاغی بلوچستان میں غربت اور بےروزگاری کی شرح کے لحاظ سے بھی نمایاں ہے۔ اتنے وسائل موجود ہونے کے باوجود ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے جاتے۔ اگرچہ یہاں قیمتی معدنی وسائل موجود ہیں، مگر ان سے مقامی آبادی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ریکوڈک اور سیندک جیسے بڑے منصوبے زیادہ تر بیرونی کمپنیوں کے زیرِ انتظام ہیں۔ یہاں سڑکوں، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات کی کمی بھی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مزید یہ کہ مقامی لوگوں کی آواز کو عموماً نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

چاغی کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مزید معیاری تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور تعلیمی کمزوریوں پر توجہ دی جائے۔ ابتدائی سطح سے لے کر کالج و یونیورسٹی تک کے انفراسٹرکچر کو فعال کیا جائے۔ تجربہ کار اور پُرجوش نوجوان اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔ موجودہ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمی دور کی جائے، اور لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے۔ خواتین کو تعلیم، صحت اور ہنرمندی کے دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

ضلعی سطح پر جدید بنیادی ہسپتال قائم کیے جائیں، جبکہ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر موجود صحت کے مراکز (BHUs) کو مزید فعال بنا کر ان میں سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موبائل ہیلتھ یونٹس متعارف کرائے جائیں تاکہ دور دراز دیہات کے غریب عوام بھی ان سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔ معیشت اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔

مقامی معدنی وسائل جیسے سونا، تانبا، یورینیم اور کرومائیٹ سے مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے راستے کھولے جائیں۔ چاغی کے قدرتی پہاڑ، ریگستان اور معدنیات سے بھرپور علاقے سیاحت کے لیے مثالی ہیں۔ تاریخی مقامات اور آثارِ قدیمہ کو محفوظ کر کے سیاحتی مراکز میں بدلا جا سکتا ہے، جن سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے میدان اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ اگر ان اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو چاغی بھی اپنی پسماندگی پر قابو پا سکتا ہے اور ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔