غلام دھرتی کی بے زبان کہانی – سفرخان بلوچ (آسگال)

43

غلام دھرتی کی بے زبان کہانی

تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

شہر کی تنگ اور شور بھری گلیوں سے نکلتی ہوئی وہ ویگن شام ڈھلے پہاڑی راستے پر چڑھ رہی تھی۔ ڈرائیور کے ہاتھ اسٹیئرنگ پر مضبوطی سے جمے تھے، جیسے وہ پہاڑوں کی ہر گھماؤ دار موڑ سے واقف ہو۔

ہوا سرد تھی، سڑک پیچ دار، اور آسمان پر بادل ایسے لٹک رہے تھے جیسے شام ابھی مکمل اتری نہ ہو مگر رات پہلے ہی اپنا سایہ زمین پر ڈال چکی ہو۔

ویگن کے اندر مسافر ایک ایک کرکے اترتے گئے، مگر چھت کے اوپر ایک پلاسٹک کا تیلا اب بھی ویگن کی چھت پر رکھا تھا۔
ہلکا سا، لرزتا ہوا۔
جس میں زندگی کی کوئی بےنام سانس دبکی بیٹھی تھی۔

شہر کے شور سے دور، پہاڑوں کی خاموشی کی گود میں سفر کرتے ہوئے ویگن آخرکار ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں نیچے ایک چھوٹا سا گاؤں پھیلا ہوا تھا۔
چند بوسیدہ گھر،
تِنکے اور مٹی سے بنے چھاجے،
چمنیوں سے اٹھتا دھواں،
اور سڑک کے کنارے گہرا سبزہ جس میں ہوا ایک اداس سی موسیقی چھیڑتی تھی۔

ڈرائیور نے ایک جھٹکے سے بریک لگائی۔
گاڑی رکی۔ وہ نیچے اترا، ایک لمحے کو پہاڑوں کے سناٹے کو دیکھا، پھر ویگن کی چھت پر چڑھا۔
اس نے وہ تیلا نما پلاسٹک اٹھایا، جسے گھر والوں نے اسے راستے میں کہیں پھینکنے کے لیے دیا تھا۔
کیونکہ وہ تھک چکے تھے اس آوارہ بلی سے،
جو ان کی اپنی بھی نہ تھی،
جو بس ان کے صحن میں کہیں جنم لینے والی کسی اجنبی بلی کی بھولی بھٹکی بلی تھی۔

ڈرائیور نے پلاسٹک کا تھیلا نیچے پھینک دیا۔
وہ لمحہ بھر رکا، شاید دل کے کسی کونے میں ہلکی سی نرمی جاگ اٹھی۔
شاید اس لیے کہ یہاں کم از کم زندگی کے لیے تھوڑی جگہ اور تھوڑا رزق تھا۔
پھر وہ واپس ویگن میں بیٹھا اور گاڑی دھول کے بادل اٹھاتی آگے بڑھ گئی۔

پلاسٹک میں کوئی جنبش ہوئی۔
ایک نحیف بلی باہر نکلی۔
آنکھیں گھبرائی ہوئی،
جسم تھرتھراتا ہوا،
جیسے اسے خود بھی یقین نہ ہو کہ زندگی نے اسے ابھی تک چھوڑا نہیں۔
یہ تھی اس کی نئی دنیا کی پہلی سانس۔

گاؤں کی طرف قدم بڑھاتے ہی ایک خشک مٹی اڑی۔
قریب کے گھر سے ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا،
اس کی نظر بلی پر پڑی تو وہ یکدم رک گیا۔
بادل ڈھکے آسمان کی طرح اس کا چہرہ بھی اَٹ گیا۔

اس نے زمین سے پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے بلی کی جانب اچھال دیا۔
پتھر بلی کے پاس زور سے گرا، مٹی اڑ گئی۔
وہ اچھل کر دور جا گری اور دھڑکتے دل کے ساتھ دیکھتی رہی۔

اسے خبر نہیں تھی کہ اسے کیوں مارا گیا۔
مگر یہی اس کی پہلی رسمِ استقبال تھی۔

گاؤں کے بیچوں بیچ ایک پرانی جھونپڑی تھی،
ٹوٹے ہوئے بانس،
ڈھیری ہوئی دیواریں،
اور چھت ایسے جیسے ہوا کی ایک تیز لہر سے گر جائے۔

یہ جھونپڑی کبھی کسی کا گھر تھی۔
کسی کی ہنسی اور خوابوں کا ٹکڑا، مگر اب صرف خاموشی اس کی دیواروں پر لگی تھی۔
یہی بلی کا بسیرا بننے والا تھا۔
جھونپڑی کے سامنے ایک تندور تھا۔
ہر صبح اور ہر شام عورتیں ادھر آتیں،
آٹا گوندھتیں،
روٹیاں لگاتیں،
اور فضا میں خوشبو پھیل جاتی۔
سفید دھویں میں لپٹی ہوئی گرم روٹی کی بھینی بھینی مہک۔

یہ عورتیں باتیں کرتی تھیں۔
کسی کے گھر کی لڑائی،
کسی کی بہو کی شکایت،
کسی سیاسی بحث کا بے سر پیر قصہ۔
اور کبھی کبھی ایسی کہانیاں جن کا کوئی انجام نہ ہوتا۔
بلی ان سب کو جھونپڑی کی اوٹ سے سنتی رہتی۔

چند دنوں میں گاؤں اس کے لیے مانوس سا ہو گیا۔
وہ کبھی مرغیوں کے پیچھے بھاگتی،
کبھی مٹی میں لوٹتی،
کبھی بچوں کی ہنسی میں شامل ہو جاتی۔
بچے اسے “میاؤں” کہہ کر پکارتے،
کبھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے،
کبھی اس کو روٹی کا ٹکڑا دے دیتے۔
کچھ لوگ محبت کرتے،
کچھ بے دلی سے ہانک دیتے،
مگر بلی نے رہنا سیکھ لیا۔
کس گھر میں کھانا ملے گا،
کس دہلیز پر لات پڑے گی،
کس باورچی خانے کے پاس سالن کی خوشبو زیادہ تیز ہے۔

گاؤں کی لڑکیاں جب سردیوں میں دھوپ پر بیٹھ کر کشیدہ کاری کرتیں،
وہ ان کے پاس آکر لمبی تان کر لیٹ جاتی۔
لڑکیاں ہنستی تھیں،
راز بتاتی تھیں،
محبتیں چھپاتی تھیں،
نام بدل بدل کر عاشقوں کی کہانیاں سناتی تھیں۔
اور بلی خاموشی سے سب سنتی رہتی تھی۔

راتوں میں جب محلہ سو جاتا،
وہ جھونپڑی کی چھت پر چڑھ جاتی اور نیچے گزرتی زندگی دیکھتی۔
کوئی عاشق سڑک کے کونے پر دبے پاؤں جاتا،
کوئی دروازہ ہلکی سی دستک دیتا۔
اور بلی ان سب کی رازدار تھی۔

مہینے بیت گئے۔
سردیوں کی دھوپ، گرمیوں کی شامیں، اور بارش کے بعد مٹی کی سوندھی خوشبو سب بلی کے دنوں میں گھلتے رہے۔

پھر ایک دن اس کی زندگی بدل گئی۔
وہ پیٹ سے ہوچکی تھی۔
ہر قدم دھیرے، ہر حرکت سنبھل سنبھل کر ہوتی۔
گاؤں کی عورتیں اسے دیکھ کر مسکرا کر کہتیں
“میاؤں ماں بننے والی ہے۔”

اور ایک صبح، جب پہاڑوں پر بادلوں کی ہلکی چادر لٹکی تھی،
جھونپڑی کے گوشے میں
اس نے تین ننھے بچے جنم دیے
دو بلیاں، ایک بلّا۔

ان کے جسم نرم مکھن جیسے، آنکھیں بند،
اور آوازیں اتنی ہلکی کہ جیسے پھولوں کی پتیوں میں چھپی کوئی آہ۔

گاؤں کی لڑکیاں جب پہلی بار انہیں دیکھنے آئیں تو حیرت سے انگلیاں منہ پر رکھ لیں۔
بچے ہنسے۔
اور بلی، وہ ممتا سے پلٹی ہوئی، اپنے بچوں پر جھکی جیسے وہ دنیا کی آخری پناہ ہو۔

اب اس کی روزمرہ کی مصروفیات بدل گئی تھیں۔
وہ صبح ہوتے ہی خوراک کے لیے نکلتی،
عورتوں کے تندوروں کے پاس، باورچی خانوں کے پیچھے،
ان گھروں میں گھومتی جہاں وہ جانتی تھی کہ ایک ٹکڑا ضرور ملے گا۔

اور پھر دوڑتی ہوئی اپنے بچوں کے پاس لوٹتی۔
انہیں چاٹتی،
سہلاتی،
اور ان کی چھوٹی چھوٹی میاؤں سنتی جو جیسے خوشی بھرے سانسوں سے بنی ہوں۔

دن یونہی گزر رہے تھے۔
عصر اور مغرب کے بیچ ایک دن ایسا سنّاٹا اترا جیسے پہاڑ سانس روک چکے ہوں۔
پھر اچانک پہاڑی موڑ سے دو فوجی گاڑیاں نمودار ہوئیں۔
گاؤں نے پہلی بار اتنی وردیاں، اتنی بندوقیں دیکھیں تھیں۔
پھر ایک لمحے بعد۔
پہلے فائرنگ ہوئی۔
پھر دھماکے۔
گاوں دھماکوں اور فائرنگ سے لرز رہا تھا۔
بلی جھونپڑی کے پیچھے دبکی ہوئی تھی۔
اس کے بچے خوف سے سکڑ گئے تھے۔
ان کی میاؤں ہوا میں گم ہو رہی تھیں۔
رات تک خبریں پھیل گئیں۔
سرمچاروں نے فوجی اہلکاروں کو مار دیا تھا،
اور ان کے ہتھیار و سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

رات گزر گئی۔
خوف نہیں گیا۔

اگلے دن سورج نکلا بھی نہیں تھا کہ پہاڑی سڑک دھول اور دھمک سے بھر گئی۔
درجنوں فوجی گاڑیاں، سینکڑوں اہلکار گاؤں میں پھیلتے گئے۔
گھر جلائے گئے،
دیواریں گِرائی گئیں،
چھتوں کو آگ لگی،
بچے چیخے،
بوڑھے زمین پر گر پڑے،
اور عورتیں اپنی ٹوٹی چوڑیوں سے چہرے ڈھانپ کر روتی رہ گئیں۔
گاؤں کا ہر حصہ دھوئیں کے پردوں میں چھپ گیا تھا۔
بلی ایک چھوٹے ٹیلے پر بیٹھ کر سب دیکھ رہی تھی۔
آنکھیں حیرت سے کھلی،
دل خوف میں جکڑا ہوا،
اور جسم میں وہ سنسنی جو صرف بے زبان محسوس کرتے ہیں۔
پھر وہ لمحہ آیا۔
جس نے اس کی دنیا ہمیشہ کے لیے بدل دی۔
ایک فوجی اہلکار جھونپڑی کے سامنے آیا۔
جیب سے ماچس نکالی۔
ایک تیلی جلائی۔
شعلہ بھڑکا،
اور اگلے لمحے جھونپڑی آگ کے سمندر میں بدلنے لگی۔

اندر اس کے تین بچے تھے۔
معصوم۔
زندگی کے صرف چند دن دیکھ چکے تھے۔
جیسے شور کے درمیان بھی بلی نے وہ میاؤں پہچان لی۔
اپنے بچوں کی چیخ۔
وہ چیخی،
دوڑی،
مٹی اڑائی،
اور آگ جلتی ہوئی جھونپڑی کی طرف لپکی۔
وہ دھواں چیرتی آگ میں کود گئی۔
اپنے بچوں کے ساتھ۔
شعلے بلند ہوتے گئے۔
اور کچھ ہی دیر میں سب کچھ راکھ ہو گیا۔
شام کو فوجی چلے گئے۔
محلہ جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔
ہر طرف جلی لکڑیوں کی بو،
راکھ،
خاکستر گھر،
اور ٹوٹی پڑی زندگیاں باقی تھیں۔
اگلی صبح لوگ خاموشی میں اپنے گھر ڈھونڈ رہے تھے۔
کہاں دیوار تھی،
کہاں چوکھٹ تھی،
کہاں سایہ
کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔
جھونپڑی اب بھی دھواں چھوڑ رہی تھی۔
اسی کے اندر
چار چھوٹی لاشیں۔
ایک ماں اور اس کے تین بچے۔
دوپہر کو وہی بوڑھا آدمی آیا۔
جس نے بلی کو پہلے دن پتھر مارنے کی کوشش کی تھی۔
آج اس کے چہرے پر کوئی سختی نہیں تھی۔
صرف حیرت،
خاموشی،
یا شاید دل کے کسی کونے میں اٹھا کوئی بے نام احساس۔
وہ جھکا،
انہیں اٹھایا،
اور گاؤں کے سامنے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔
اسے آج بھی نہیں معلوم تھا
کہ اس نے یہ کیوں کیا۔

گاؤں پھر آباد ہوا،
زندگیاں پھر چلنے لگیں،
بچے پھر ہنسنے لگے،
عورتیں تندور پر باتیں کرنے لگیں۔
وقت نے جلد مرہم رکھ دیے۔
مگر پہاڑوں میں ایک میاؤں کی گونج کہیں دبی رہ گئی۔
وہ میاؤں جو ماں کی آخری پکار تھی،
یا شاید اپنے بچوں کو بلانے کی صدا۔
زندگیاں آگے بڑھ گئیں،
مگر جھونپڑی کی جگہ پر
آج تک گھاس نہیں اگتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔