بلوچستان میں ریاستی طاقت کا سب سے سفاک چہرہ بلوچ عورتوں پر نظر آتا ہے – سمی دین بلوچ

0

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ آج بلوچستان میں ریاستی طاقت کا سب سے سفاک چہرہ بلوچ عورتوں کے جسموں پر نظر آتا ہے۔ ان پر وہ جرائم تھوپے جاتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔ بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا جاتا ہے، لاپتہ کر دیا جاتا ہے، کوٹھڑیوں یا خاموشی میں غائب کر دیا جاتا ہے۔ انہیں مارا جاتا ہے، ان کا پیچھا کیا جاتا ہے، ان پر نظر رکھی جاتی ہے، انہیں صرف اس لیے سزا دی جاتی ہے کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ جینے کی ہمت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ جیسی خواتین کی قید دراصل ریاست کا اپنا اعتراف ہے، یہ اس بات کا اقرار ہے کہ ایک بلوچ عورت کی سیاسی آواز اس کے قدموں کے نیچے سے زمین ہلا سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اور پھر ماہ جبین اور نسرین جیسی عورتیں ہیں لاپتہ ہوئی، گم کی گئی۔ ریاست نہ ان کے نام لیتی ہے، نہ ان کے بارے میں سوال کا جواب دیتی ہے کیونکہ جواب دینا اس بات کو ماننے کے برابر ہوگا کہ انہیں کون لے گیا اور کیوں لے گیا اور جب بلوچ خواتین صرف اپنے پیاروں کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکلتی ہیں، تو انہیں وہ تشدد دیا جاتا ہے جو ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے جنہیں ریاست پہلے ہی انسانیت کے درجے سے محروم کر چکی ہوتی ہے۔ ڈنڈے، گھونسے، گالیاں، گرفتاریاں، قانون میں ان کے لیے کوئی رحم نہیں، اور اقتدار والوں کی اخلاقیات میں کوئی شرم نہیں۔ اور جو سچ بولنے کی ہمت کرتی ہیں، ان کے لیے ریاست کے پاس سب سے بھیانک لفظ ہوتا ہے: ’’دہشتگرد‘‘۔

مزید کہا ہے کہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ پاکستان میں قانون نام کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہاں صرف آمریت کی ایک چنگاڑتی ہوئی مشینری ہے اور اس کے سامنے کھڑی وہ عورتیں، زخمی مگر ثابت قدم، چاہے دنیا انہیں دیکھنے کا انتخاب کرے یا نہ کرے، اس دن پر بھی جو عورتوں کے احترام کا دعویٰ کرتا ہے۔