افغانستان کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے صوبہ خوست میں ایک گھر پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں 10 بچے اور خواتین ہلاک ہوئے ہیں جبکہ کنڑ اور پکتیکا میں ہونے والے فضائی حملوں میں مزید چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان نے تاحال افغان حکومت کے ترجمان کے اس الزام پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ خوست کے ضلع گربزو میں پیر اور منگل کی درمیانی شب (لگ بھگ 12 بجے) بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں مقامی شہری ولایت خان کا مکان نشانہ بنا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں نو بچے اور ایک خاتون ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر بھی جاری کیں ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ کنٹر اور پکتیا میں بھی فضائی حملے کیے گئے ہیں جس میں کم سے کم چار شہری زخمی ہوئے ہیں۔
صوبہ کنٹر کے مقامی افراد نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ گذشتہ رات گئے انھوں نے مراوارہ، اسد آباد اور شیلطان کے علاقوں میں بڑے دھماکوں کی آوازیں سُنی ہیں۔
اسد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ انھیں دھماکے کی آواز رات گئے آئی تھی۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستانی افواج نے افغانستان نے کے حدود کے اندر فضائی حملے کیئے ہیں۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ پاکستان نے دارالحکومت کابل سمیت مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے ہیں۔
ماضی میں پاکستان نے افغانستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے بارے میں کابل کے الزامات کی تردید کی ہے لیکن گذشتہ ماہ پاکستان نے کہا تھا کہ اُس نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تحریکِ طالبان پاکستان کی کارروائیوں کے سبب حالات کشیدہ ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے ارکان پاکستان میں کاروائیوں میں ملوث ہیں اور افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے جبکہ افغانستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ ہے۔


















































