پندرہ سالہ نسرین بلوچ کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی، بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کی ایک اور دلخراش مثال ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آواران سے تعلق رکھنے والی طالبہ نسرین بلوچ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حب میں مقیم تھی۔ 22 نومبر 2025 کی رات تقریباً بارہ بجے پاکستانی فورسز اور خفیہ اہلکاروں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ چھاپے کے دوران اہلِ خانہ کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور نسرین کو زبردستی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ اس کے بعد سے نہ تو خاندان کو ان کی حالت یا مقام کے بارے میں کوئی اطلاع دی گئی ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری بیان سامنے آیا ہے۔ خاندان گہری اذیت اور بے بسی کا شکار ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ واقعہ کوئی نیا یا اچانک پیش آنے والا سانحہ نہیں۔ اس سے کچھ ماہ قبل کوئٹہ میں معذور اور پولیو سے متاثرہ طالبہ ماجبین بلوچ کو بھی اسی طرح ریاستی فورسز، سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں نے ہاسٹل سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا۔ سات ماہ گزر جانے کے باوجود ماجبین اب بھی جبری گمشدہ ہیں۔ ایک معذور طالبہ کو اٹھائے جانے کا واقعہ اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی پالیسی میں بنیادی حیثیت صرف بلوچ شناخت کی ہے۔ جبری گمشدگیوں میں کسی مخصوص عمر، جنس، اور صحت کے حالات کو نہیں دیکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس جبر کا نشانہ بن سکتا ہے۔
مزید کہا گیا کہ بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر چھاپے، گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، ٹارگٹ آپریشنز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بنتی جارہی ہیں۔ بغیر عدالتی کارروائی، بغیر شواہد اور بغیر قانونی جواز کے بلوچ خواتین کو حراست میں لینا بین الاقوامی قوانین، جنیوا کنونشن اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان واقعات نے ہزاروں خاندانوں کو صدمے، غم اور مستقل عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ نسرین اور ماجبین جیسی معصوم طالبات کی جبری گمشدگیاں اس وسیع انسانی المیے کی شدت کو بے نقاب کرتی ہیں جو بلوچستان میں اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پندرہ سالہ بچی اور ایک معذور طالبہ کا لاپتہ ہونا کسی بھی طرح سیکیورٹی پالیسی نہیں کہلا سکتا؛ یہ نہ صرف بلوچ شناخت کو نشانہ بنانا ہے بلکہ عزتِ نفس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ خواتین کی جبری گمشدگی کو معمول بنا کر بلوچوں کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ ان کی جان اور وقار غیر محفوظ ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی رویے کا مقصد اگرچہ عوام کو خوفزدہ کرنا اور انہیں سیاسی جدوجہد سے دور رکھنا ہوسکتا ہے، مگر یہ اجتماعی تکالیف بالآخر سیاسی شعور کو تقویت دیتی ہیں اور عوامی مزاحمت کو مزید توانائی فراہم کرتی ہے۔ بلوچ قوم کے لیے ضروری ہے کہ ان انسانیت سوز مظالم کو دنیا کے سامنے یکجا ہوکر پیش کرے تاکہ یہ درد اور صدمہ صرف چند خاندانوں کی مستقل اذیت نہ بنے، بلکہ بلوچ قوم کے لئے جدوجہد کا محرک بنے اور یہی درد اس جبر کے نظام سے نجات کا باعث بنے۔



















































