سفر خان کے آریٹکل ’’آتشین‘‘ کے تناظر میں
تحریر: ساھل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عام دنوں کی طرح میں موبائل پر نیوز دیکھ رہا تھا تو میری نظر دی بلوچستان پوسٹ میں سفر خان کی آرٹیکل پر پڑی، تو میں نے اس آرٹیکل کو غور سے مطالعہ کیا، اور سوچا کہ اس پر اپنی مختصر رائے دے دوں۔
شاید سفر خان صاحب نے نیلسن منڈیلا کی کتاب آزادی کا طویل سفر نہیں پڑھا ہوگا۔ شاید سفر خان اس ریاست کو کمزور لے رہا ہے۔ شاید سفر خان صاحب کو یاد دلانا ہوگا کہ بابا خیر بخش نے خود کہا تھا کہ بابو نوروز اور آغا عبدالکریم کی غلطیوں سے ہمیں سیکھنا ہوگا۔ جہاں تک ارتقاء کی بات ہے تو ہمارے قومی تحریک میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ سن 1948 میں آغا عبدالکریم نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر دشمن پر بھروسہ کیا—بہت بڑی غلطی تھی۔ 1961 میں بھی یہی غلطی پھر سے سرزد ہوئی۔ لیکن پھر بلوچ قوم نے ان فریب، جھوٹ اور مکھاریوں سے سیکھا۔ لیکن 70 کی دہائی میں منظم تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے تحریک آگے نہ بڑھ سکی۔ جہاں تک دوہزار کی بات ہے تو دوہزار میں تحریک نے قبائلیت سے نکل کر تنظیمی شکل اختیار کر لیا. کیا یہ ارتقاء نہیں ہے؟ بلوچ قومی تحریک سرداری نظام اور سرداروں کے ہاتھوں سے نکل کر جمہوریت کی شکل اختیار کر لی، اور یہی تحریک عام، قابلِ اور تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس چلا گیا۔ کیا یہ ارتقاء نہیں ہے؟
کیا یہ ایک بہت بڑی تبدلی نہیں ہے؟ جب دوہزار میں مسلح جدوجہد تنظیمی شکل میں آئی—ہاں، میں مانتا ہوں کہ تنظیموں میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں؛ ایسی جگہوں میں تنظیموں نے غلطیاں کی ہیں جو کہ غلطی نہیں بلکہ بلنڈر تھیں۔ مری کوہستان میں جہاں 1839 میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت شروع تھا، اور پنجاب استعمار کے قبضہ میں بھی مزاحمت جاری تھا، اور آج ڈیڈھ صدی گزرنے کے بعد بھی مسلح تنظیمیں اپنے آپ کو وہاں منظم کرنے میں ناکام رہیں—یہ غلطی سرزد ہوئی ہے۔ دوہزار کے بعد مسلح تنظیمیں تقسیم در تقسیم ہوتی گئیں، پتہ نہیں کیا وجہ تھی—لیڈروں کی کمی تھی یا لیڈروں کی آپسی تضادات یا سیاسی تنظیم کی فقدان کہ بلوچ قومی تحریک یکجا اور متحد ہونے میں ناکام رہے، لیکن ہمارے لیڈروں نے ان غلطیوں سے سیکھا۔ آپ نے دیکھا کہ 2018 میں براس کی شکل میں سب تنظیمیں متحد ہوگئیں۔ کیا یہ ارتقاء نہیں ہے؟
چیزیں ایک دم تبدیل نہیں ہوتیں؛ آپ کو تو پتہ ہوگا کہ ایک تنظیم کو فحال ہونے میں کتنے وقت لگ سکتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں بابا خیربخش مری کے ذہن میں ایک مسلح تنظیم تھی، لیکن 80 میں وہ مسلح تنظیم کیوں فحال نہ ہو پائی؟ خیربخش کی یہی تصور 2000 میں آکر ایک مسلح تنظیم کی ڈھانچہ بنی۔ استاد واحد کمبر کے تصور میں بھی ایک مسلح تنظیم کی ڈھانچہ تھا، لیکن وہ کیوں 80 میں فحال نہ ہوا؟
ایک تنظیم کے ڈانچے کی تصور کو بنانے میں بیس سال لگ سکتے ہیں، تو آپ سوچیں کہ ایک تنظیم کو منظم ہونے، اور اپنے قوم کی اعتماد، عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ جب تک آپ کو قوم کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا تو آپ جیت نہیں سکتے۔ ایک قومی تحریک کی سب سے بڑی ہتھیار اپنی قوم ہوتی ہے، اور قوم کا اعتماد حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔ قوم کی اعتماد حاصل کرنے میں بہت وقت لگے گا۔
آپ کہتے ہیں کہ ناں، طویل جنگ نہ ہو تو آپ کے ذہن میں شاید یہی ہوگا کہ آزادی اُس پہاڑ پر ہے، چڑھ کر لے آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے؛ بھائی، آزادی کی جنگ میں بڑا معیشت درکار ہوگا جو آپ کے پاس وہ نہیں ہے۔ ریاست کی 90% معیشت فوج پر خرچ ہو رہی ہے، اُس کے پاس تمام جدید ہتھیار موجود ہیں جو آپ کے پاس نہیں ہیں، پھر کہتے ہو کہ وقت لگتا ہے۔ اب تک آپ صحیح طریقے سے منظم نہیں ہوئے ہو؛ پھر کہتے ہو کہ آزادی طویل نہ ہو—یہ عجیب منطق ہے۔ آپ کی جنگ اب تک کچھ ریجنوں تک محدود ہے: مری کوہستان اور کوہِ سلیمان میں تو نہ ہونے کے برابر ہے۔
کچھ دن پہلے ہم دوستوں کے دیوان میں بیٹھے تھے، وہاں فلموں پر بات ہو رہی تھی۔ تو ایک دوست نے کہا کہ حنیف شریف بلوچستان میں آکر فلم بنائے گا تو میں نے کہا کب آئے گا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ جب بلوچستان آزاد ہوگا تو میں کہا کب آزاد ہوگا؟ اُس نے کہا 2030 میں تو میں ہنس پڑا۔ شاید سفر خان صاحب بھی اسی غلط فہمی کے شکار ہیں۔
آپ نے اپنے تحریر میں طالبان کی مثال دی ہے؛ شاید آپ نے اس کا جغرافیائی مطالعہ نہیں کیا۔ امریکہ 6,800 کلومیٹر دور افغانستان سے ہے؛ آپ کا دشمن آپ کے بارڈر پر ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو چین اور دوسرے ملکوں کا جغرافیہ مختلف ہے، اور چین بہت بڑا ہے؛ پھر بھی چین نے کتنے سال خانہ جنگی میں گزارے ہیں، اور اُس کے تقریباً چار ملین لوگ مارے گئے ہیں۔ چین اور افغانستان کی پوری قوم تیار تھی، اور ہماری آدھی قوم بھی اب تک تیار نہیں۔ اب تک بلوچستان کے سارے لوگ ہماری طرف داری نہیں کر رہے ہیں۔ ایک تو ہماری تعداد کم ہے، دوسرا معیشت اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ دوسری جانب ریاست کی ساری مشینری بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ جلدی کریں—عجب کی بات ہے۔
آخر میں ایک بلوچی کہاوت آپ کے لیے عرض ہے کہ ’’اشتاپ کار ءَ پاد ماں پلاراں مان اڑایت‘‘
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































