قلات کی چٹانوں کا وفادار فرزند شہید سنگت شہباز خان مری – وشین بزدار

2

قلات کی چٹانوں کا وفادار فرزند شہید سنگت شہباز خان مری

تحریر: وشین بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

شہید شہباز خان مری عرف پیر جان، تمہاری شہادت سے لے کر اب تک میں اس سوچ میں رہا ہوں کہ تمہارے بارے میں اگر کچھ لکھوں تو تمہارے کردار کے بارے میں جذبات کی رو میں بہہ کر کسی صورت بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کروں گا، کیونکہ یہ تمہارے خون اور کردار سے انصاف نہیں ہوگا۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں ایک ایسے کاروان میں شامل ہوا جو نہ صرف ایک کاروان ہے بلکہ ایک درسگاہ ہے، ورنہ مجھے کیا پتا تھا شناخت کیا ہے، قوم کی اہمیت کیا ہے اور زمین سے سچی وابستگی کسے کہتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نوآبادیاتی نظام کسے کہتے ہیں، لیکن اب کی بار میرا گزر قلات کے ان سنگلاخ پہاڑوں سے ہوا جہاں شہید پیر جان (شہباز خان) پیدا ہوئے تھے، وہ جگہ جس نے سردار اور وڈیروں کی غلامی کے خلاف روزِ اوّل سے انگریز نوآباد کار کے خلاف مزاحمت کی ہے۔

کبھی سوچتا ہوں کہ کاش میں اس ہستی کے حوالے سے ایک کتاب لکھ کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرسکتا۔ کیوبا کے کاسترو اور ارجنٹائن کے چے گویرا کے مداحوں کو قلات کے اس سنگلاخ پہاڑ پر زندگی کو نئی جہت دینے والے عظیم بہادر انسان کی جدوجہد سے روشناس کراسکتا۔ پیر جان جیسے فرزند دنیا میں ظلم و جبر کے خلاف چے گویرا اور کاسترو کے روشن کیے گئے مشعل کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ کاش میں ایک مصور ہوتا تو مائیکل اینجلو کی طرح اس عظیم انسان کی تصویر بنا کر دنیا کو پیش کرسکتا کہ تم کبرال اور نکرومہ کی بات کرتے ہو جو اپنے وطن کے لیے لڑے، میں فخر سے تمہاری یہ تصویر دنیا کو دکھا سکوں۔ تم آزاد بلوچستان کے لیے اپنے آپ کو قربان کر گئے۔

بالاچ سے منسوب بہادری کی داستان تم سے ضرور پوچھتا، جس کے حوالے سے نواب خیر بخش مری سے کسی صحافی نے پوچھا: کیا آپ کو بالاچ کے شہادت کا دکھ نہیں؟ تو جواب میں بابا مری ایک افسانوی قصہ سناتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کسی کا جوان بیٹا مر گیا اور وہ شخص اپنے بیٹے کی (دعاِ فاتحہ) میں بیٹھا لوگوں کے ساتھ ہنس رہا تھا۔ جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اپنے بیٹے کے جانے سے کوئی پریشانی نہیں، تو وہ اٹھا، پیشاب کرکے واپس آیا اور بیٹھے ہوئے شخص سے کہا کہ جا کر پیشاب دیکھ لو، درد کی شدت سے خون آرہا ہے۔

یہ تو محض ایک افسانوی کہانی ہوسکتی ہے لوگوں کے لیے، لیکن اس کے پیچھے درد کی وہ کہانی ہے جو شاید بابا مری نے کبھی کسی کو سنائی نہیں ہوگی، اس لیے یہ کہانی ہمیشہ ایک ان کہی کہانی سمجھی جائے گی۔ مگر بلوچ تاریخ میں بالاچ ہمیشہ کے لیے امر ہو چکا ہے۔

شہید پیر جان تنظیم میں ایک عظیم کردار تھے، ایسا کردار جو شاید میرے الفاظ میں بیان نہ ہوسکے۔ پیر جان کے سنگت اور تنظیمی ذمہ داران جانتے ہیں کہ وہ دی گئی ذمہ داری کو کیسے خوش اسلوبی سے نبھاتے تھے۔ انہوں نے کسی بھی مشکل سے مشکل ذمہ داری سے کبھی نہیں کترایا۔ تنظیم میں ان کے سنگت سے تعلقات مثالی تھے۔ وہ مہر کی ایک خوبصورت چڑیا تھے، ہمیشہ گفتار سے ہر نئے آنے والے ساتھی کا دل جیت لیتے تھے۔

2019 سے 2025 تک انہوں نے تنظیم میں مثالی کردار ادا کیا۔ پیر جان مشکل وقت کو اپنی بہترین حکمتِ عملی سے ٹال دیتے تھے۔ انہوں نے منظم انداز سے کئی محاذوں پر دشمن قابض فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کیا۔

مگر آزادی کی جنگ میں زندگی وطن پر قربان ہو جاتی ہے۔ 4 نومبر 2025 وہ دن تھا جس دن پیر جان ہمیشہ کے لیے اپنے وطن کی آزادی کے لیے شمع کی طرح روشنی بن کر (بلوچستان) قربان ہوا۔ ان کے خون کا ہر قطرہ اس وطن کے لیے امر ہو چکا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔