بے سمت خیال کی آخری سانس
تحری: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میں اپنے اندر ایک ایسے لمحے کو چھو رہا ہوں جو شاید کبھی مکمل نہیں ہوا۔ میں خود کو لکھتے ہوئے نہیں پاتا، بلکہ کچھ میری انگلیوں کے اندر لکھ رہا ہے، کوئی ایسا زخم جس نے وقت کو اپنے گرد لپیٹا ہوا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں صرف ایک لفظ نہیں، ایک دراڑ ہوں، اور اس دراڑ سے روشنی نہیں بلکہ پورا کا پورا ایک سوال نکلتا ہے کہ آخر مزاحمت کب ایک نام سے بدل کر احساس بن جاتا ہے۔ میں لمحے کو تھامنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ لمحہ پکڑتے ہی مرجاتا ہے۔ میں صرف اسے دیکھتا ہوں، جیسے کوئی قیدی اپنے سائے کو دیکھتا ہے، اور سایہ اس سے پوچھتا ہے کہ آزادی کہاں ہے؟ میں وہاں ہوں جہاں پانی اپنی ہی تصویر سے گھبرا کر بہنے لگتا ہے اور زبان اس بہاؤ میں اپنا ڈھانچہ کھو کر کچھ زیادہ سچ میں بدل جاتی ہے۔ شاید اسی لیئے میں لکھتا ہوں کہ کہیں لفظ زندہ رہ جائیں، کہیں میں اپنی خاموشی کا وہ رخ دریافت کر سکوں جو مجھ سے ہمیشہ بھاگتا رہا۔
میں جب اپنے اندر جھانکتا ہوں تو سب سے پہلے ایک عجیب سی خاموشی دکھائی دیتی ہے، ایسی خاموشی جو باہر کی دنیا کو سننے سے پہلے خود کو سنتی ہے۔ انسان کے اندر جو کچھ ٹوٹ پھوٹ رہا ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اسی خاموشی میں پناہ لیتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ خاموشی کہاں سے آتی ہے۔ شاید وہاں سے جہاں انسان اپنے خوفوں کو پہلی بار پہچانتا ہے۔ شاید وہاں سے جہاں کوئی بھی نام یا شناخت باقی نہیں رہتا۔ اس مقام پر انسان خود کو دیکھا ہوا محسوس کرتا ہے، مگر دیکھنے والے کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ میں اسی ان دیکھے لمحے کے اندر بیٹھ کر سوچتا ہوں کہ مزاحمت کیا ہے۔ لفظوں کا شور نہیں۔ بلند آواز والے نعروں کا تیز ہجوم نہیں۔ مزاحمت وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنی شکست کے امکان کو پہچان کر بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ یہ وہ اندرونی فیصلہ ہے جس کی خبر باہر کسی کو نہیں ہوتا۔
انسان کے اندر جو سب سے پہلی جنگ شروع ہوتی ہے وہ اس کے مزاج اور اس کے ضبط کے درمیان لڑی جاتی ہے۔ مزاج کبھی ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتا ہے، لمحاتی، بے چین، تیز۔ ضبط کسی پہاڑ کی طرح ہوتا ہے، خاموش، ساکن، گہرا۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اکثر اپنے مزاج کو سچ سمجھ لیتے ہیں، مگر سچ ہمیشہ ضبط سے گزرتا ہے۔ مزاج انسان کو بھڑکاتا ہے کہ وہ فوری فیصلہ کرے، فوراً ردعمل دے، فوراً چھلانگ لگا دے۔ ضبط اسے تھامتا ہے کہ فیصلے کا وزن محسوس کیئے بغیر چھلانگ لگانا خود سے خیانت ہوگا۔ زندگی کی روانی اسی میں ہے کہ ایک حصہ آگ بنے اور دوسرا پانی۔ آگ راستہ بنائے، پانی اس راستے کو تھامے۔
فوکس انسان کے منتشر ذہن میں ایک ایسی خاموش روشنی پیدا کرتی ہے، جو بیرونی شور کے باوجود بجھتی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ بکھراو میں بھی اپنے اندرونی چراغ کو بچا سکے۔ یکسوئی کے پہلے لمحے میں انسان اپنے اندر کے ہنگامے کو روک کر سننا شروع کرتا ہے کہ اصل میں کون سی آواز اس کی ہے اور کون سی آواز باہر کی دنیا نے اس پر تھونپی ہے۔ اسی یکسوئی میں ایک کمزور جسم بھی پہاڑ سا فیصلہ کر لیتا ہے۔ میں نے اپنی زمین پر دیکھا ہے کہ جہاں چراغ بجھنے کے قریب ہو، وہاں اگر چند لوگ یکسوئی سے کھڑے ہو جائیں تو وہ چراغ بجھتا نہیں۔ اگر کوئی چھوٹی سی مزاحمت کسی بڑے فنا کو روک دے تو وہ اپنی غایت تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
غایت پسندی ایک عجیب سا طلسم ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ کسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن درحقیقت انجام اس کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ مقصد کا حسن اسی میں ہے کہ وہ ادھورا رہے۔ ادھورا مقصد انسان کو حرکت میں رکھتا ہے۔ پورا مقصد انسان کو بیکار کر دیتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ انسان کی اصل زندگی ان فاصلوں میں ہوتا ہے جو اس کے خواب اور اس کی حقیقت کے درمیان ہوتے ہیں۔ جب آدمی کسی غایت کے پیچھے چل رہا ہوتا ہے تو وہ چلنے کی حرارت میں خود کو بدل بھی رہا ہوتا ہے۔ غایت ہمیشہ کہیں دور دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت میں غایت انسان کے اندر کا وہ چشمہ ہے جو اسے راستہ دکھاتا ہے۔ انجام تک پہنچنا اتنا ضروری نہیں جتنا انجام کی سمت چلنا ضروری ہے۔
کمٹمنٹ وہ ہے جو انسان کو تھکاوٹ کے باوجود قدم بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ گہرائی وہ ہے جو اسے اپنے ہر فیصلے کے اندر چھپی ہوئی حقیقت دیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ کمٹمنٹ کے بغیر راستہ بھٹک جاتا ہے۔ گہرائی کے بغیر راستہ سطحی ہو جاتا ہے۔ گہرائی صرف نظریاتی کتابوں میں نہیں ہوتی۔ گہرائی ان لمحوں میں بھی ہوتی ہے جب کوئی نوجوان بستی کے سنسان راستے پر رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ نہیں بدلتا، جاتے ہوئے جانتا ہے کہ شاید واپسی ممکن نہ ہو مگر پھر بھی جاتا ہے کیونکہ اسے جانا ہے۔
میں واپس اپنے اندر لوٹتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ زندگی کا اصل بوجھ بیرونی حالات نہیں بلکہ اندرونی بے ترتیبی ہے۔ انسان جب تک اپنے اندر کے شور کو ترتیب نہیں دیتا وہ باہر کی دنیا میں کچھ نہیں بدل سکتا۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ اپنی خاموشی کو سننا سب سے مشکل کام ہے۔ خاموشی میں وہ سچائی چھپی ہوتی ہے جس سے اکثر لوگ بھاگتے ہیں۔ میں بھاگنا نہیں چاہتا۔ میں بیٹھ کر اس خاموشی کو سنتا ہوں۔ اس میں کبھی بچوں کی چیخیں، کبھی عورتوں کے آنسو، کبھی جوانوں کی قدموں کی چاپ، کبھی کسی پرانے گیت کی مدھم لہر شامل ہو جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ آوازیں محض آوازیں نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی اجتماعی یادداشت ہیں۔ میں ان یادوں کے ساتھ بیٹھ کر سمجھتا ہوں کہ مزاحمت کوئی عادت نہیں، کوئی غصہ نہیں، کوئی وقتی ردعمل نہیں۔ مزاحمت ایک اندرونی آگ ہے۔ یہ آگ کبھی بارود سے نہیں جلتی۔ یہ آگ ناانصافی کو پہچاننے سے جلتی ہے۔ جب انسان کسی زیادتی کو اندر تک محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر ایک ایسی چنگاری پڑتی ہے جو بجھتی نہیں۔
میں جانتا ہوں کہ میں ابھی مکمل نہیں ہوں۔ میں بھی ایک ناتمام تحریر ہوں۔ مگر یہی ناتمامی میری اصل زندگی ہے۔ اگر میں مکمل ہو جاتا تو شاید بدلنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا۔ میں بدلتا رہتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ دنیا ابھی بدلنے کی طلب رکھتی ہے۔ میں قلم اٹھاتا ہوں تاکہ میری اندرونی آواز باہر بھی سنائی دے۔ میں خاموش رہتا ہوں تاکہ باہر کا شور میرے اندر کی گہرائی کو نہ ڈبو دے۔ میں ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ راستے صرف پتھروں پر نہیں بنتے بلکہ انسان کی نیتوں میں بنتے ہیں۔
میں جب اپنے اندر اس خاموش دراڑ کے قریب آتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ یہ دراڑ پہلے سے کچھ زیادہ روشن ہے، جیسے وقت نے اسے مزید کھول دیا ہو۔ میں سوچتا ہوں کہ وقت انسان کے زخموں کو بھرنے نہیں آتا بلکہ انہیں سمجھانے آتا ہے۔ میں سمجھتا جا رہا ہوں کہ ہر زخم ایک راستہ بھی ہوتا ہے، ایک ایسا راستہ جس پر چلنے کی ہمت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ میں اس راستے پر قدم رکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میرے پیروں کے نیچے نہ کوئی پتھر ہے نہ کوئی مٹی۔ بس ایک عجیب سی لرزش ہے جو مجھے چلائے جا رہی ہے۔ شاید مزاحمت اسی لرزش کا نام ہے کہ انسان اپنے خوف پر قدم رکھ کر آگے بڑھ جائے۔
ایک قوم کا اصل امتحان اس کے ہنگاموں سے نہیں بلکہ اس کے سناٹوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ سناٹے انسان کی اصل پہچان ہوتے ہیں۔ ہجوم کے درمیان کوئی بھی بہادر لگ سکتا ہے۔ اصل بہادری اس لمحے میں ہوتی ہے جب کوئی شخص اکیلا کھڑا ہوکر اپنے اندر کی لرزش کو برداشت کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہم نے اپنی تاریخ میں یہی بہادری بارہا دیکھی ہے۔ کبھی پہاڑوں کے اندر، کبھی کھنڈرات کے پیچھے، کبھی کسی اندھے کنویں کے پاس، کبھی کسی ویران جھونپڑی میں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنا نام کبھی نہیں لیا، کبھی دکھایا نہیں، کبھی اعلان نہیں کیا۔ وہ لوگ ہمارے اصل ستون ہیں۔
ارتقاء انسان کی ہڈیوں میں ہونے والی وہ دھیرے دھیرے تبدیلی ہے جسے کوئی نہیں دیکھ پاتا مگر نتیجہ سب دیکھ لیتے ہیں۔ یہ تبدیلی شور نہیں مچاتی۔ یہ تبدیلی وقت کی انگلی تھام کر آگے بڑھتی ہے۔ شاید اسی لیئے اقوام بھی ایک دن میں نہیں بنتیں۔ قومیں اپنے اندرونی خوفوں، اپنی تلخیوں، اپنی شکستوں اور اپنی امیدوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بُن کر بنتی ہیں۔ ارتقائی آزادی وہ ہے جس میں انسان اپنے ذہن کی زنجیریں پہلے توڑتا ہے، پھر وہ زنجیریں خود بخود بیرونی دیواروں کو بھی کمزور کر دیتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی سیاسی راستہ پہلے ذہنوں میں بنتا ہے پھر میدانوں میں۔ ذہن آزاد ہوں تو میدان ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔
میں جب اپنے اندر دوبارہ لوٹتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی اس ارتقاء کا حصہ ہوں۔ میں بھی اپنے اندر سے گزر کر اپنے باہر کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ اور یہی اندر کا سفر سب سے مشکل ہے۔ انسان باہر ہر لڑائی لڑ سکتا ہے مگر اپنے اندر کے خلا سے بھاگ کر کبھی جیت نہیں سکتا۔ میں اپنے اندر کے خلا کو دشمن نہیں سمجھتا۔ وہ خلا میرا استاد ہے۔ وہ مجھے بتاتا ہے کہ میں کہاں ٹوٹا، کیوں ٹوٹا، اور کس جگہ مجھے دوبارہ بننے کی ضرورت ہے۔ یہی خلا مجھے چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی خلا مجھے سکھاتا ہے کہ راستہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
میں اپنے اندر کے اس بے نام خلا میں جھانکتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی نرم سایہ میری ہتھیلی کے راستے میرے دل تک اتر رہا ہو۔ میں نہیں جانتا وہ روشنی ہے یا دھند، بس ایک بے آواز لہر ہے جو میرے وجود میں کہیں کوئی خاموش دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس دروازے کے پار کوئی فتوحات نہیں، کوئی انجام نہیں، صرف ایک ہلکی لرزش ہے جو یاد دلاتی ہے کہ میں ابھی مکمل نہیں ہوا، کہ میں اسی ادھورے پن میں سانس لے رہا ہوں۔ میں اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میرا وجود کسی شام کی طرح پھیل رہا ہے اور میں اپنی ہی خاموشی کے اندر دھیرے دھیرے جنم لے رہا ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں خود ہوں بھی اور نہیں بھی، اور شاید یہی ادھورا سا ہونا میرا ہونا ہے۔
اور جب میں اپنے آپ کو واپس ان لفظوں کے کنارے کھڑا دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید یہ سب کسی بڑے مقصد کی تلاش میں لکھا جا رہا ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ تحریر کسی مقصد کیلئے نہیں۔ یہ بس ایک بہتا ہوا خیال ہے، بے سمت، بے منزل، جیسے خود کو سننے کی ایک ادھوری کوشش ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔















































