کتاب: میرا داغستان
مصنف: رسول حمزہ توف | مترجم: اجمل اجملی
تبصرہ: ارشاد شمیم
دی بلوچستان پوسٹ
ایک عرصے سے یہ کتاب میرے دل پر دستک دے رہی تھی، مگر غمِ روزگار کی دلفریبی ہمیشہ اس کے قریب لا کر پھر دور لے جاتی۔ اب فرصت ملی ہے تو اسے مکمل پڑھ لیا ہے۔
رسول حمزہ توف روس کے معروف داغستانی شاعر، ادیب اور دانش ور تھے۔ وہ 8 ستمبر 1923 ء کو داغستان کے گاؤں سدا میں پیدا ہوئے اور 3 نومبر 2003 ء کو ماسکو میں 80 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
’میرا داغستان‘ رسول حمزہ توف کی سب سے مشہور اور لازوال نثری تخلیق ہے۔ یہ روایتی ناول نہیں، بلکہ خود نوشت، سفرنامہ، فلسفہ، شاعری، قوم شناسی اور اخلاقی مکالمے سب کا حسین امتزاج ہے۔ کتاب کا مرکزی موضوع داغستان کی سرزمین، اس کی تاریخ، وہاں کے لوگ، ان کی روایات، محبت، انسان دوستی، محنت اور شاعر کی زندگی کے تجربات ہیں۔
جب داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑی تو رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انہوں نے دوبارہ تعلیم کا آغاز کیا اور ماسکو میں داخلہ لیا۔ 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے تک اور بعد میں انہیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی؛ یہ رفاقت ان کی فکر اور فن کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئی۔
رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اسی دوران ان کے چند شعری مجموعے شائع ہوئے اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔
حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ اپنے وطن داغستان، آبائی علاقے اور زبان سے محبت کا اظہار ان کی شاعری میں اس وارفتگی اور والہانہ پن سے ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔
رسول حمزہ توف کی کتاب “میرا داغستان” کا جو نسخہ میرے پاس موجود ہے، اسے اجمل اجملی صاحب نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب حیرت انگیز اور بےمثال ہے۔ وطن سے محبت اگر میانہ روی کھو دے تو نازی ازم میں ڈھل جاتی ہے، لیکن رسول حمزہ توف اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ کسی دوسرے وطن سے نفرت نہیں کرتے۔
سادگی اس کتاب کا خاص وصف ہے۔ ادبی تیکنیک کے تمام تقاضوں کو یہ کتاب پوری کرتی ہے (منفرد تشبیہات، استعاروں، تلمیحات، حکایات اور ذاتی تجربات کا کثرت سے استعمال)، لیکن کہیں بھی بوجھل نہیں ہوتی بلکہ بہتے دریا کی روانی محسوس ہوتی ہے۔ تحریر کی یہ خوبی نہایت نایاب ہے اور یہ اسلوب بہت محنت طلب ہے۔
پوری کتاب نہایت ذہانت سے ترتیب دی گئی ہے۔ لہجہ دل گداز ہے۔ ہر ادبی تیکنیک کا برمحل استعمال کیا گیا ہے۔ تمام قصّے دلچسپ اور حقیقت سے قریب تر، تمام کردار زندگی سے کشید شدہ، اور ان سے حاصل کردہ نتائج منطقی اور عام قارئین کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔ کتاب سے ایک کوسنے (بد دعا) کا اقتباس جو مقامی لوگوں کی اپنی زبان سے محبت کو ظاہر کرتا ہے:
“خدا کرے تیرے بچے اس زبان سے محروم ہو جائیں جو ان کی ماں بولتی ہے۔ یہ کوسنا میں نے ایک عورت کو دوسری عورت کو دیتے ہوئے سنا ہے۔”
مجھ کو اپنی زبان پیاری ہے
لاکھ کوئی! اسے حقیر کہے
عالمی محفلوں میں جا نہ ملے
میرا دل تو مقام ہے اس کا
روسی حکومت نے اس شاعر و ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“، جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔
یہ کتاب ایک طرح سے نئے لکھاریوں کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے اور قارئین کے ادبی ذوق کی نشوونما بھی کرتی ہے۔ اس کتاب کا ایک بنیادی سبق ہے:
BE ORIGINAL
دل کی آنکھ سے پڑھی جانے والی یہ کتاب جو بار بار مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے، ہر صورت آپ کی ذاتی لائبریری کا حصہ بننے کی مستحق ہے۔












































