بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے ساحل پر دو سبز سمندری کچھوے مردہ حالت میں پائے گئے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ دونوں کچھوے علی الصبح ساحل کے قریب ریتیلی پٹی پر مردہ حالت میں دیکھے گئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کچھوے ممکنہ طور پر کئی گھنٹے پہلے مر چکے تھے۔ ان کے جسم پر کسی قسم کے تازہ زخم کے آثار تو نہیں ملے، تاہم اس حوالے سے آبی حیات کے ماہر ظریف بلوچ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی اموات سمندر میں پائے جانے والے پلاسٹک، آلودگی یا ماہی گیروں کے جالوں میں پھنسنے کے باعث ہوسکتی ہیں۔
ظریف بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سبز کچھوے (Green Turtles) دنیا کی نایاب اور محفوظ اقسام میں شمار ہوتے ہیں اور پسنی کے ساحل ان کی افزائش کے لیے اہم مقام مانے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلسل آلودگی، غیر معیاری ماہی گیری اور ساحلی پٹی پر بڑھتی انسانی سرگرمیاں ان جانداروں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی مختلف اقسام تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی، ساحلی علاقوں کی تباہی، غیر قانونی شکار اور پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے استعمال نے کچھوؤں کی بقا کو شدید خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری کچھوے اپنی افزائشِ نسل کے لیے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں، تاہم ساحلی پٹی پر انسانی سرگرمیوں اور تعمیراتی دباؤ کی وجہ سے ان کے محفوظ ٹھکانے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب، سمندر میں پلاسٹک کی موجودگی بھی کچھوؤں کی موت کی بڑی وجوہات میں شامل ہے، کیونکہ وہ اسے خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت واقع ہوتی ہے۔بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بھی کچھوؤں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں کئی اقسام مکمل طور پر ناپید ہو سکتی ہیں۔


















































