بلوچستان کا دارالحکومت حالیہ یک طرفہ سیکیورٹی اقدامات کے باعث عملی طور پر ایک سیکیورٹی زون کی شکل اختیار کر چکا ہے، سیکیورٹی خدشات کے نام پر شہر کی اہم شاہرائیں بغیر کسی پیشگی اطلاع یا عوامی مشاورت کے بند یا انتہائی محدود کر دی گئی ہیں، جس سے روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
عوامی حلقوں اور شہریوں نے صوبائی وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی ناکامیوں کا بوجھ لاکھوں شہریوں کی زندگی مفلوج بنا کر عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں جاری کیے گئے سیکیورٹی تھریٹ الرٹ کے بعد شہریوں کی نقل و حرکت بڑی حد تک محدود کردی گئی ہے، جبکہ شہر میں انٹرنیٹ سروس بھی بار بار بندش اور جزوی بحالی کا شکار ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ انسکمب روڈ کو اچانک یک طرفہ کرنے سے سول ہسپتال تک ایمبولینسوں اور ایمرجنسی مریضوں کی بروقت رسائی انتہائی مشکل ہوگئی ہے۔
اسی سڑک پر واقع کوئٹہ کچہری، سیشن کورٹ، کمشنر آفس اور ڈپٹی کمشنر آفس جانے والے وکلا، سرکاری ملازمین اور عام شہری بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے عقب میں واقع سڑک حالی روڈ اور ماڈل ٹاؤن کو محدود کیے جانے سے ٹریفک کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو گیا ہے۔
انہوں نے عدالتِ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے متاثرہ سڑکیں فوری طور پر کھولنے کا حکم دے۔
علاوہ ازیں بلوچستان اور دیگر علاقوں خصوصاً کراچی، لاہور اور پشاور کے درمیان ٹرین سروسز بھی کئی ماہ سے معطل ہیں، مسافر بسوں پر پابندی اور محدود سفری سہولیات کے باعث مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
جعفر ایکسپریس جو ماضی میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کا بارہا نشانہ بنی، کئی ماہ سے معطل ہے اسی طرح بولان ایکسپریس بھی تاحال کراچی سے کوئٹہ پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان حکومت نے کوئٹہ سے کراچی و دیگر مقامات کو جانے والی مسافر بسوں پر مکمل پابندی عائد کردی تھی، حکومت کا مؤقف تھا کہ 13 نومبر کو حملوں کا خطرہ موجود تھا، تاہم عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا، البتہ بسوں کی روانگی صرف مخصوص اوقات تک محدود کردی گئی ہے۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے نام پر پورا بلوچستان بند کردیا گیا ہے، لوگ گھروں سے بازار تک آزادی سے نہیں جا سکتے اور کوئٹہ سمیت دیگر بڑے اضلاع میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بری طرح متاثر ہیں۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ صوبے میں انٹرنیٹ ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دہشت گرد حملوں اور پروپیگنڈے کے لیے بھی ان ہی ذرائع سے مدد لیتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انٹرنیٹ بندش اور دیگر حفاظتی اقدامات کے باعث صوبے میں حملوں میں کمی آئی ہے۔
تاہم عوامی و سیاسی حلقوں نے وزیرِ اعلیٰ کے اس مؤقف کی تردید کی ہے، ان کے مطابق مسائل کو دبانے سے نہیں بلکہ حل کرنے سے حالات بہتر ہوتے ہیں، جبکہ حکومت سہولیات فراہم کرنے کے بجائے شہریوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
شہریوں مزید کہنا ہے کہ صوبائی حکومت سیکیورٹی کی فراہمی میں ناکامی کے بعد غیر آئینی اقدامات سے عوامی مصائب میں اضافہ کر رہی ہے۔
















































