کئی جانباز، تو کئی غدار – شائستہ طارق جمالدینی

29

کئی جانباز، تو کئی غدار

تحریر: شائستہ طارق جمالدینی

دی بلوچستان پوسٹ

کہا جاتا ہے کہ سکھوں کے ساتھ جنگ میں میر نصیر خان بلوچ کی پگڑی گر گئی، جس کی وجہ سے ان کے لمبے بال نمایاں ہوگئے۔ سکھوں نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے ان پر حملہ کرنے سے خود کو روکا — انہیں لگا کہ یہ ان کا بھائی ہے، کیونکہ سکھ بھی لمبے بال اور داڑھی رکھتے ہیں۔

میر نصیر خان جب کیمپ میں آئے تو انہوں نے حجام بلا کر اپنے بال اور داڑھی شریعت کے مطابق کٹوا دی۔ انہیں دکھ تھا کہ سکھوں سے مشابہت کے باعث وہ جامِ شہادت سے محروم ہوگئے۔ انہیں دیکھ کر باقی مسلمانوں نے بھی اپنے بال اور داڑھیاں چھوٹی کر لیں۔

تاریخ کو کھوجتے کھوجتے ایمان تازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے حکمران گزرے ہیں — جنہیں اپنی دھرتی اور زبان سے اتنی محبت تھی کہ وہ ہر لمحہ کفن بدوش رہتے تھے۔ وہ ایمان اور سچائی کے مصداق تھے۔ اس کے برعکس، خود کو فروخت کرنے والے اور اپنے ایمان کا سودا کرنے والے بھی گزرے ہیں، محض چند انعامات اور خطابات کے لیے۔

تاریخ ہمیں واشگاف بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں تعصب اور انتشار کسی سوچی سمجھی چال کی نشاندہی کرتا ہے۔ تب ہی تو آج مسلمان مختلف فرقوں، زبانوں اور منافرت میں بٹ کر بغض و کینہ جیسے ناسور کو نمو دے رہے ہیں۔

اسی لیے آج تاریخ کے شجاعوں جیسے ہیرو کہاں ہیں جو اپنی تلوار کی نوک سے دشمن کی تقدیر کا فیصلہ کرتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ انسان نے خود کو ہمیشہ سستا فروخت کیا ہے، جس کی وجہ سے قوم کو کردار کے مہنگے لوگوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

جیسے اندلس کے مسلمانوں کو بربریت اور ظلم کے طوفان کا سامنا اپنے ہی والی عبداللہ کی وجہ سے ہوا، جس نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی خود کو عیسائیوں کے حوالے کر کے اندلس کی تقدیر بدل ڈالی۔

نسیم حجازی کے مطابق: “باہر کے دشمنوں کے مقابلے میں گھر کے غدار کہیں زیادہ ناقابلِ تسخیر ثابت ہوئے ہیں۔”

تاریخ کے مٹی زدہ صفحات بھرے پڑے ہیں ایسے واقعات سے، جہاں زیادہ مار اندرونی غداروں سے ہی پڑی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ان سستے میں بکنے والے مسلمانوں کے خریدار انگریز ہی تو تھے، جنہوں نے بلوچ تاریخ میں بھی اپنا حربہ استعمال کیا — “لڑاؤ اور حکومت کرو”۔

خصوصاً قلات کا دربار انگریزوں کی سازشوں کا مرکز بنا، جہاں دربار کے اندر کے کچھ وزیر انگریزوں کے زر خرید غلام بن گئے۔ نتیجتاً خانِ اعظم کے دربار پر انگریزوں کی ایک ہزار دو سو باسٹھ فوج نے حملہ کیا، جبکہ خانِ اعظم کے فقط چار سو جانبازوں نے ان کا مقابلہ کیا۔
خانِ اعظم سمیت کئی سپاہی شہید ہوئے اور یوں غداروں کا حربہ کامیاب ہو گیا۔ کرنل مالیسن نے اپنی تاریخِ افغانستان میں اسے انگریزوں کا “ناقابلِ فراموش گناہ” لکھا ہے۔

انگریزوں کے آنے سے قبل ریاستِ قلات میں دینی تعلیم پر خاص زور دیا جاتا تھا۔ بچوں کو مدرسوں میں عربی و فارسی پڑھائی جاتی تھی۔ لیکن جب قلات کے وزیراعظم سر شمس شاہ آئے تو ریاست میں تعلیم کا خدا ہی حافظ ہو گیا، کیونکہ شمس شاہ انگریزوں کا وفادار اور عیاری و مکاری اس کی فطرت کا حصہ تھی۔

کہتے ہیں کہ ہمیں ہماری خوبیوں کی وجہ سے زیادہ ناپسند کیا جاتا ہے، ہماری خامیوں سے نہیں — یہی حال تھا ریاستِ قلات کے وزیراعظم کا، جو ہر دیانت دار اور قوم کو بیدار کرنے والے سے نفرت کرتا تھا۔

اسی طرح انگریزوں نے سندھ کی سرزمین پر قدم جمانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے اور کئی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
میر نصیر خان، جو اس وقت سندھ کے امیر تھے، اندرونی دشمنوں سے نمٹنا ان کے لیے خاصا گراں گزرا۔ انگریزوں کو زیر کرنے کے لیے تیار کردہ ہر منصوبہ کسی مُنشی کے ذریعے انگریزوں تک پہنچ جاتا تھا۔

انگریزوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا۔ حتیٰ کہ 1857ء میں سپاہیوں کے لیے تیار کی گئی رائفلوں کے کارتوسوں میں سور کی چربی استعمال کی گئی۔ ان غلیظ چربی لگے کارتوسوں کو سپاہیوں نے دانتوں سے کاٹنا تھا — یہ خبر مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگا گئی۔

انگریز مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اس گھناؤنے عمل نے سپاہیوں کو بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ انگریزوں نے سپاہیوں کو چھ پونڈ کے گولے والی توپ سے اڑا دیا۔ ان کے بدن کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے — اور یہ مسلمانوں کو ایک سبق دینا تھا کہ سر اٹھانے اور بغاوت کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن مسلمان اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اندرونی و بیرونی غداروں سے لڑتے رہے۔

اقبال کے کلام میں ایک صحیح آدمی کے صحیح جذبات ابھر سکتے ہیں — مگر شرط یہ ہے کہ آدمی بھی صحیح ہو اور جذبات بھی۔
جب انسان کے جذبات سچے اور درست ہوں تو منزل مل ہی جاتی ہے، چاہے ٹکراؤ پہاڑ سے ہو یا ظلم سے۔ بیدار ذہن اپنا راستہ خود نکال لیتے ہیں اور تازیانہ بیداری پیدا کر دیتے ہیں۔

یوسف علی مگسی بھی ایسے ہی گزرے ہیں — جنہوں نے اپنے نام سے “سردار” اور “نواب” کا لفظ ہٹانا پسند کیا، مگر اپنے ایمان اور جذبے کا سودا نہیں کیا۔ ان کے ارادوں سے بھلا کون ٹکرا سکتا تھا؟
ان کا ایک شعر:

موت کا ایک دن معین ہے
مجاہدوں میں کرائیں نا کیوں نام اپنا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔