شہداء کی قربانیوں کے ساتھ انصاف
تحریر: کاکا انور
دی بلوچستان پوسٹ
یہ سرزمین ہماری ماں ہے، اور اس کے لیے اپنی جان نچھاور کرنا ہمارا فرض بنتا ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ مرنے کے بعد رشتہ دار اپنا دکھ بانٹ کر رخصت ہو جاتے ہیں، مگر زمین ہی ہے جو ہمیں اپنے آغوش میں لیتی ہے۔ والدین سب سے بڑے ہوتے ہیں، وہ ہمیں اپنے آغوش میں پال کر سنبھالتے ہیں، مگر جب روح جسم چھوڑ دیتی ہے تو ماں اسے اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے اسی دھرتی کی گود میں سلا دیتی ہے۔ اکثر لوگ وقت کے ساتھ مفاد کے پیچھے چلے جاتے ہیں، لیکن زمین ہی ہماری آخری ساتھی اور اصل مقصد رہتی ہے۔ زمین نے اپنی وفا اور اپنے وفاداروں کی مثالیں بارہا دی ہیں، وہ اپنے بچوں کو اپنی گود میں لے کر ایک ماں کی طرح سکون دیتی ہے اور انہیں عذاب سے بچاتی ہے۔
تاریخ میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں کہ صدیوں گزر جانے کے بعد بھی شہیدوں کے جسد خاکی صحیح سلامت ملے، جیسے ابھی ابھی دفن کیے گئے ہوں۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے اپنی وفا کا حق ادا کیا اور دھرتی ماں کی گود میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔
بلوچ قوم کے لیے یہ سرزمین ماں کی مانند ہے، اور اس کی حفاظت ہر بلوچ کا فرض ہے۔ اپنی بقا، اپنی آزادی، ریاست کی بحالی اور زمین کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔ بلوچ نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم اور نسل کو جہد و جنگ اور قومی آزادی کے شعور کے راستے پر گامزن کریں تاکہ آنے والی نسلیں غلامی اور ظلم سے محفوظ رہ سکیں۔ بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں، کیونکہ قوم کی حفاظت مرد و زن دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی گناہ نہیں کہ بلوچ اپنی سرزمین، اپنی بقا اور اپنے قومی ریاست کی بحالی کے لیے کھڑے ہوں بلکہ یہی وفا، یہی غیرت، اور یہی انسانیت و قومی امنگوں کا تقاضا ہے۔
آزادی کی جنگ میں یہ قربانیاں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو غلامی کی زندگی کی اذیتوں کے سامنے بلوچ نے ان ستر سالوں میں غلامی کے عذاب سہے ہیں۔ اس آزمائش زدہ زندگی کی مثال آزاد بلوچستان کے وہ سرمچار ہیں جنہوں نے طاقت، حوصلہ اور سر کی قربانیاں دے کر تاریخ میں امر ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنگ آزادی میں بہت کچھ قربان کرنا ہوگا، بہت کچھ سہنا ہوگا، اور کئی مشکلات گزر جانے کے بعد ہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔
بلوچستان ہمارا وطن ہے، اس سرزمین پر بلوچ کا حق ہے۔ ہم جنگ کیوں نہ کریں جب کہ یہ ہمارا حق ہے، چاہے شریعت ہو یا ریاست، ہمیں لڑنے کا حق ہر جگہ دیا جاتا ہے، دنیا کی کوئی اخلاقیات قبضے کے خلاف لڑنے کو منع نہیں کرتی۔ بلوچ نے اس نہ رکنے والی جنگ آزادی میں اپنے سروں کی قربانیاں دے کر کبھی ذرا بھی نقصان کا تصور نہیں کیا۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ آزادی حاصل کر کے رہے گا اور آزادی تک قربانی دینا ہر بلوچ کا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہر بہادر بلوچ زندہ رہنے کے اس موقع کو پہچانے، اپنا بلوچ ہونے کا حق ادا کرے، اپنی سرزمین کے حق کی ادائیگی کرے، اپنی بقا کو برقرار رکھے، اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحال زندگی کے لیے جدوجہد کرے۔ بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر یہ سب قربانی دینے کے بعد ہی ممکن ہے اور قربانی دے کر ہی ہم اپنا وطن حاصل کر سکتے ہیں۔
تو اے پیارو، وقت یہی ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اس سے مستفید ہوں۔آزاد بلوچستان کے لیے آج جنگ جاری ہے، بہادر جنگجو لڑ رہے ہیں۔ جنگ میں قربانی دینا صرف مرنا، مارنا یا سر دینے کا نام نہیں۔ اس میں اعمال، نیک نیتی، وطن دوستی، اور دشمن کا ساتھ نہ دینا بھی شامل ہے۔ جنگ میں ماں، بہن، بھائی، چھوٹے، بڑے، مرد و عورت سب شامل ہو سکتے ہیں۔ اپنے وطن اور بقا کی جنگ لڑنے کا حق حاصل ہے، تو پھر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دشمن کے تماشائی کیوں بنے بیٹھے ہیں جو ہمیں روزمرہ کی بنیاد پر تباہ کرتا جا رہا ہے؟ کبھی گھروں سے اٹھا کر غائب کرنا، زندانوں میں ڈال کر برسوں کی اذیت سہنے پر مجبور کرنا، عزتوں کی تذلیل کرنا، درندوں جیسا سلوک کرنا، تو بہتری اسی میں ہے کہ ہم جنگ کریں، اور ہمیں کرنا ہوگا۔ تب ہم جا کر آزاد ہوں گے اور نجات حاصل کر پائیں گے۔
یہی جنگ ہمیں غلامی سے نجات اور بقا کی ضمانت دے گی اور ان قربانیوں کے ساتھ انصاف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم ایک آزاد ریاست کے وارث ہوں گے۔













































