گردشِ تصویر – سفر خان بلوچ (آسگال)

87

گردشِ تصویر

تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

بزرگ کہتے تھے کہ وقت مثل درویش ہے، وہ لمحوں کو تسبیح کے دانوں سے گنواتا جاتا ہے اور ہر دانہ، ایک تصویر میں ڈھل جاتا ہے۔

کہیں مسکراہٹ کا عکس، کہیں خاموشی کا سایہ۔

اسی دیوان میں، ایک سال پہلے، ایک پروقار شخص بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے چند تصویریں تھیں۔ چہرے جو کبھی زندہ تھے، باتیں کرتے تھے، زندگی کے رعنائیوں سے بھرپور جہد مسلسل میں مگن تھے۔

اب خاموش مگر پُرسکون ہیں

وہ ان تصویروں کو دیکھ کر اس کے دل میں فخر کا جذبہ موجزن تھا، گویا وہ جانتا ہو کہ وقت نے اسے انہی کا ھمسفر چنا ہے۔

تاہم وقت، درویش ہی تو ہے، وہ کبھی ٹھہرتا نہیں۔ وقت ٹھرنے کے گنجائش سے ماورا ہوکر ہوا کے دوش میں محو سفر ہے۔

ایک سال بیتا، ہوا کا رخ بدلا، خون کا سیلاب سرزمین کو سیراب کرتا رہا اور وہ زندہ شخص خود تصویر بن ڈل گیا۔

جدوجہد میں محو شخص، جدوجہد کا استعارہ بنا

اب وہ اس فریم میں قید ہوچکا ہے، جن کے سامنے بیٹھ کر وہ اغیار کے خلاف جہدوجہد کا عہد کرتا رہا ہے۔

جہاں کبھی اس کی نگاہیں ان ساتھیوں کے تلاش کرتا تھا جو آزادی کے راہ میں پناہ ہوچکے تھے۔

اور آج دیوان میں بیٹھے نئے چہرے انہی تصویروں کو دیکھ کر ویسا ہی فخر محسوس کر رہے ہیں۔ گویا وقت کے اس کھیل میں ہر کوئی اپنی باری کا منتظر ہے۔

یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ آنے والے سالوں میں مزید باوقار چہرے اس راستے کا مسافر بنیں گے۔ اور نئے چہرے فریم میں قید ہوکر ان کی جگہ لیں گے۔

یہ گردشِ عکس دراصل گردشِ روح ہے۔
ایک سفر جو جسم سے تصویر تک، اور تصویر سے روشنی تک سفر کرتا جاتا ہے۔

پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب وقت کے ٹھہرنے کا سماں ہوگا۔

جب طلوعِ امید کا سورج افق پر نمودار ہوگا،
اور سب تصویریں روشنی میں تحلیل ہو جائیں گی۔

بس ایک نور ہوگا۔
جہاں سب چہرے، سب یادیں، سب داستان ایک وحدت میں ضم ہو جائیں گی۔

وہ بامِ مراد کا دن ہوگا۔
جب تصویر میں مقید اشخاص کا تصور کامرانی سے ہمکنار ہوچکا ہوگا اور یہ سفر اپنی آخری تعبیر تک پہنچ چکا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔