13 نومبر، شہداء بلوچستان کی عظیم قربانیاں اور ہماری ذمہ داریاں – مزار بلوچ

36

13 نومبر،شہداءِ بلوچستان کی عظیم قربانیاں اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی کی تحریک میں شہیدوں کا لہو تحریک کی آبیاری اور کامیابی و کامرانی کی ضامن ہوتی ہے، اقوامِ عالم کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جس تحریک میں شہداء نے لہو بہایا ہے ان کا لہو کبھی راہیگاہ نہیں گیا بلکہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ کے ساتھ درج ہوا ہے، معاشرے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور مقصد کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔ وہ دھرتی جسے شہیدوں نے اپنی خون سے سیراب کیا ہے وہ ضرور زرخیز ہوا ہے، شہداء کی عظیم قربانیوں سے آزادی کی خوشبو مہک اٹھتی ہے۔

بلوچستان کی آزادی کی خاطر شہداء نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر آزادی کی تحریک کو تقویت دی ہے اور نظریہِ آزادی و قربانی کے اصل مفہوم کو ہر ذی شعور بلوچ تک پہنچا دیا ہے۔ شہداء نے اپنی خون سے آزادی کا نقشہ سینچا ہے، اپنی عمل و کردار سے یہ ثابت کرکے دکھایا ہے کہ تحریک قربانیوں، محنت اور خلوص سے اپنی نصب العین یعنی آزادی کو حاصل کر سکتی ہے۔ جس طرح کسی گلشن کی تزئین و آرائش کے لیے جس طرز کی محنت ضروری ہے، اسی طرح ایک نظریہ کو منطقی انجام تک لے جانا اور تحریک کا مقصد حاصل کرنے کے لیے بے دریغ قربانیوں کی ضرورت ہے، جو ہمارے شہیدوں نے دی ہے اور ہمارے لیے راہ ہموار کی ہے۔

قابض ریاست کی ظلم و بربریت اور قبضے کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنا کر اور اپنی جان قربان کرکے شہداء نے قربانیوں کی ایک نہ تھمنے والی تسلسل کی بنیاد رکھی ہے۔ آج ان شہیدوں کا دن ہے جنہوں نے دشمن کے کیمپوں میں گھس کر اسے کاری ضربیں لگائیں، ان شہیدوں کا دن ہے جو جھڑپوں میں گھنٹوں تک دشمن سے دوبدو لڑائی میں اسے خاک کی دھول چٹا تے رہے اور ہمت و عظمت کی ان مٹ داستانیں چھوڑ کر مزاحمت کی تاریخ میں امر ہوگئے۔ آج ان شہیدوں کا دن ہے جو دشمن کی عقوبت خانوں میں طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرکے بھی اپنے نظریے پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، شہادت قبول کی مگر نظریہ پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔

ان عظیم ہستیوں کی کردار بیان کرتے ہوئے الفاظ ماند پڑتے ہیں، وہ جنہوں نے سرزمین کی خاطر سب کچھ قربان کیا، ذاتی مفادات و ذاتی زندگی کو ترک کرکے وطن کی آزادی اور قوم کی بقا و شناخت کو ترجیح دی۔ جدوجہدِ آزادی کے اس طویل، پر خطر اور کٹھن راستے کے تمام مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رہے، کبھی بھی کمزور نہیں ہوئے اور مستقل مزاجی کے ساتھ مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ جان قربان کی مگر کبھی بھی قابض دشمن کے سامنے نہیں جھکے۔

آج 13 نومبر ان شہیدوں کا دن ہے جنہوں نے وطن سے کیئے ہوئے وعدے کو نبھایا، وطن سے محبت کی لازوال مثال قائم کرکے نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ اور سرچشمہِ قربانی کی علامت بن گئے۔ مرگ میں زیست کو پاکر موت کو گلے لگانا اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہونا در حقیقت سب سے بڑی قربانی ہے، اور یہی وہ جذبہ ہے جس کی وجہ سے آج نوجوان نسل جوق درجوق تحریک کے صفوں میں شامل ہو رہی ہے اور دشمن کے کیمپوں میں کھلبلی کا سماں ہے۔

آج شہیدوں کو محض یاد کرنے کا دن نہیں ہے بلکہ یہ عہد کرنے کا دن ہے کہ ہمیں شہیدوں کے مشن کو آگے لے جانا ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے، اپنے کردار و اعمال سے یہ ثابت کرنا ہے کہ جس مقصد کے لیے ہمارے شہیدوں نے اپنی جان قربان کی ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ بہ حیثیت شہداء اور ان کے مشن کا وارث ہونا ہماری ذمہ داریاں انتہائی زیادہ ہیں، ان تمام ذمہ داریوں کا ادراک و شناسائی رکھنا اور اپنی ہر قول و فعل میں اس عظیم مقصد کو ہی زندگی کا مقصد بنانا ہے جس کی خاطر شہیدوں نے شبانہ روز محنت کی ہے اور اس کے حصول کے لیے جان دی ہے۔

ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگ کو جدید دور کے عین تقاضوں کے مطابق جدت و شدت کے ساتھ آگے لے جانا ہے، ایک مکار اور ظالم قابض دشمن کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کرنا ہے اور اسے شکست فاش سے دوچار کرنا ہے۔ ایک ایٹمی قوت دشمن کی غرور کو خاک میں ملانا ہے، ایک آزاد ریاست کے قیام کو یقینی بنانا ہے جس میں بلوچ قوم کی ننگ و ناموس اور جان و مال محفوظ ہو۔ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عمل کے میدان میں قدم رکھنا، مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا، قربانیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا، مایوسی و نا امیدی سے بچنا، فولادی سوچ کے ساتھ خلوصِ نیت سے اپنی منزل کی جانب سفر کرنا ہی وقتِ حاضر کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اور اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہمیں بے غرض ہو کر قربانی کے اس فلسفے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جس پر شہداء نے عمل کر کے تحریکِ آزادی کو کامیابی کی شاہراہ پر رواں دواں کیا ہے۔

بلوچ قوم کی تاریخ میں 13 نومبر کے دن کو انتہائی زیادہ قدر و منزلت حاصل ہے، یہ شہیدوں کا دن ہے، وطن زادوں کا دن ہے، وطن پر قربان ہونے والوں کا دن ہے۔ یہ صرف ایک دن نہیں بلکہ امید کی وہ کرن ہے جو بلوچ قوم کو غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے باہر نکالنے، قومی شعور کی بیداری کو اجاگر کرنے اور شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کر کے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔