شہدائے بلوچستان اور مزاحمت – شے ہالی بلوچ

29

شہدائے بلوچستان اور مزاحمت

تحریر: شے ہالی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

استعمار اپنی استعماریت کو برقرار رکھنے کے لیے سفاکیت کی انتہا تک جاتا ہے، اور ہر وہ ہتھکنڈہ اختیار کرتا ہے جس سے مظلوم کو دبایا جا سکے۔ اس کے برعکس، مظلوم اپنی مظلومیت کو اجاگر کرنے کے لیے مزاحمت کا راستہ اپناتا ہے، جو اس کا آخری اختیار ہے۔ بلوچ تاریخ بھی ایسے ہی مزاحمت کاروں سے بھری ہوئی ہے جو اپنے مال و جان اور اہل و عیال کی پروا کیے بغیر شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔ بلوچ کنفیڈریشن کے دور میں عبداللہ خان قہار نے مزاحمت کے اشعار للکار کر کہے:

کوھنگ ءِ اے کوھیں قلات
کسی پت ءِ میراس نہ انت
ما گوں سگاراں گپتگاں

یعنی کوھنگ جو بلوچستان سے منسوب تھا (آج بھی قلات میں ایک علاقہ ہے)، اس کی پہاڑی چوٹیاں کسی کے باپ کی وراثت نہیں، ہم نے بزور شمشیر ان علاقوں کو فتح کیا ہے۔ خان عبداللہ کے بعد، میر نصیر خان نوری نے بادشاہ افغانستان احمد شاہ ابدالی کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمارے سرحدوں کی تعیین اور احترام کیا جائے، ورنہ ہم ہر اس مزاحمت کے لیے تیار ہیں جو آپ ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آخر کار احمد شاہ ابدالی نے قلات پر یک بعد دیگرے دو حملے کیے، جن کا میر نصیر خان نے اپنی فوجی قوت کے ساتھ بھرپور مزاحمت کی، جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی پسپا ہوا اور بلوچستان کی جغرافیہ کو قبول کر کے اس سے اچھے تعلقات قائم کیے۔

وقت گزرتا گیا اور بلوچ سرزمین خوشحالی کی طرف گامزن رہی۔ برصغیر میں انگریزوں کا تسلط ہوا، جن کی نظریں دور دراز بلوچستان پر بھی تھیں، جو عسکری اور تجارتی لحاظ سے اہم گزرگاہ تھا۔ بلوچستان کو اپنے زیرِ نگیں لانے کے لیے مختلف حربے آزمائے گئے، مگر کامیابی نہ ملی۔ جب بلوچستان میں خان اعظم میر نصیر خان کے پوتے میر محراب خان کی حکمرانی تھی، تو انگریزوں نے قلات پر حملہ کیا۔ چونکہ میر محراب خان کو مزاحمت اور یہ عظیم سرزمین وراثت میں ملی تھی، اس کی رگ رگ میں اجداد کا خون دوڑ رہا تھا، اس لیے اس نے اپنے اسلاف کا راستہ اختیار کیا، مزاحمت کی، اور 13 نومبر 1839ء کو اپنے دیگر تین سو ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ اس عظیم سانحے کے بعد بلوچوں کی مزاحمت جاری رہی۔

انگریزوں نے برصغیر کو چھوڑنے سے قبل بلوچستان کو اس کی اصل (آزاد) حالت میں بحال کیا اور بلوچستان میں دو ایوان بنے: دیوان عام اور دیوان خاص، جن کی قیادت تعلیم یافتہ سیاسی افراد کے ہاتھ میں تھی۔ تاہم، انگریزوں کے جاتے ہی ایک غیر فطری ریاست وجود میں لائی گئی، جسے پاکستان کہا گیا۔ اس غیر فطری ریاست نے بلوچوں کی آزادی کو دھوکہ دہی سے سلب کر کے ان پر غلامی مسلط کر دی۔ (بلوچ عوام نے برطانیہ کے جانے کے بعد آٹھ مہینے تک آزادی کی سانس لی تھی) لیکن بلوچوں نے ایک بار پھر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

نو مولود غیر فطری ریاست پاکستان کے خلاف پہلی انسرجنسی مزاحمت آغا عبدالکریم خان نے کی، جو مکران کے گورنر اور خان میر احمد خان کے چھوٹے بھائی تھے، اور یہ مزاحمت 1947ء سے 1948ء تک جاری رہی۔ آغا عبدالکریم خان کو دھوکے سے پہاڑوں سے اتار کر گرفتار کیا گیا۔

دوسری انسرجنسی مزاحمت 1958ء میں بابو نورز خان نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کے ساتھ شروع کی، جو ایک سال تک جاری رہی۔ انہیں بھی مقدس کتاب کی قسم دے کر دھوکہ دیا گیا اور پہاڑوں سے اتار کر گرفتار کیا گیا، بعد میں انہیں تختہ دار پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔

تیسری انسرجنسی مزاحمت 1962ء سے 1969ء تک رہی، جو سیاسی حوالے سے بھی منظم تھی۔ اس میں بلوچ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں سرگرم کیا گیا، تاکہ وہ اس تحریک میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

چوتھی انسرجنسی مزاحمت 1973ء سے 1979ء تک جاری رہی، جو پہلے کی مزاحمتوں سے زیادہ وسیع تھی۔ اس کا دائرہ مری، بگٹی قبائلی علاقوں سے جھالاوان اور کچھ حد تک مکران تک پھیل گیا، جہاں شہید فدا اور شہید حمید سمیت بہت سے نامعلوم بلوچ شہید ہو گئے، جو گمنام ہیروز ہیں۔ پاکستان کی سفاکیت کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بلوچوں کا سیاسی شعور مزید پختہ ہوتا گیا۔

پانچویں انسرجنسی 2000ء میں شروع ہوئی۔ ہر کوئی قربانی دینے کو تیار ہو گیا، اور اس تحریک میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے بلوچ شامل ہو گئے۔ اس تحریک کے دوران عام بلوچ مادر وطن کی آزادی اور غلامی سے نجات کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے سے نہیں ہچکچایا۔ اس کے نتیجے میں غیر فطری ریاست پاکستان نے اپنی سفاکیت کی انتہا کر دی اور “اٹھاؤ اور مارو” جیسی پالیسیاں اختیار کیں۔ اجتماعی قبروں کا انکشاف ہونا شروع ہوا اور ویرانوں میں بلوچ نوجوانوں کو شہید کر کے ان کی لاشیں پھینکنے کا عمل عام ہو گیا۔ لاپتہ افراد کی لاشیں بڑے بڑے ہسپتالوں کی چھتوں پر رکھ دی گئیں، جیسا کہ ملتان کے نشتر ہسپتال کی چھت پر پانچ سو سے زائد لاشیں رکھی گئی تھیں۔

2009ء سے 2012ء تک ہر دن ایک بلوچ سیاسی کارکن کی مسخ شدہ لاش مرگاپ میں پھینکی گئی۔ اس دوران سات سو (700) سے زائد بلوچوں کی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئیں، جن میں سے کچھ کی شناخت بھی ممکن نہ ہو سکی تھی۔ بلوچستان میں اجتماعی قبروں کا المیہ دن بدن شدت اختیار کرتا گیا۔ کبھی کاونٹر ٹیررازم کی آڑ میں، تو کبھی جعلی مقابلوں کے نام پر 45 یا کبھی 22 جبری لاپتہ افراد کی لاشیں پھینکی گئیں۔ یہ سب واقعات ایک عظیم المیہ بن کر سامنے آئے۔

اسی مناسبت سے ہر ایک بلوچ، چاہے وہ تحریک مزاحمت میں یا جعلی مقابلوں یا اجتماعی قبروں میں شہید ہوا ہو، ان شہداء کے لیے ایک دن مختص کیا گیا ہے، جو 13 نومبر ہے۔ یہی وہ دن ہے جب خان میر محراب خان نے اپنے ساتھیوں سمیت اپنی مادر وطن کے دفاع کے لیے برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی اور جام شہادت نوش کیا۔

اس دن کی مناسبت سے ہر سال دنیا بھر میں بلوچ اپنے شہداء اور ان کی لازوال قربانیوں کو یاد کر کے، ان کے مقصد — آزادی — کی خاطر مزاحمت کا علم بلند رکھتے ہیں۔ شہداء نے اپنی انمول جانوں کی قربانی دے کر اس تحریک کو زندہ رکھا۔ سال کے 365 دنوں میں مشکل سے ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب بلوچستان کے فرزندوں نے اپنی جان قربان نہ کی ہو۔

اس حوالے سے ایک مخصوص دن مقرر کیا گیا ہے اور ہم ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے سرزمین بلوچستان کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اس طویل شہداء کی فہرست مرتب کریں اور ان کی فلسفۂ قربانی کو مزید اجاگر کریں، تاکہ دنیا میں ان کی جانثاری کی صدائے بازگشت ہو۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزاحمت کے راستے کو زندہ رکھیں اور قومی بقا و تشخص کی حفاظت اس وقت تک کریں جب تک آزادی کا خواب پورا نہیں ہو جاتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔