ایک عظیم ناول کا عظیم خالق – ارشاد شمیم

53

ایک عظیم ناول کا عظیم خالق

تحریر: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی انسان ایک زندگی میں دو بار جنم نہیں لیتا لیکن اس عالم فانی نے ایسے انسانوں کو بھی اپنے آغوش میں پالا ہے جن کا دوسرا جنم حادثاتی طور پر وجود میں آیا۔

یونیورسٹی آف بلوچستان کے ہاسٹل کے تیرہویں بلاک کا کمرہ نمبر 52، یہ کمرہ دکھنے میں شاید ایک عام سی رہائش گاہ معلوم ہو، لیکن درحقیقت یہاں ایک عہد کی یادگاریں موجود ہیں۔ کمرہ نمبر 52 وہ کمرہ ہے جہاں بلوچستان کے معروف ناولٹ نگار، شیر دل غیب نے دوسری بار جنم لے کر اپنی جوانی کے یادگار دن بسر کیے۔ جہاں انہوں نے تنہائیوں اور اداسیوں کے بیچ اپنے ہی اندر سے ایک داستان گو کو جنم دیا، یہی ان کا دوسرا جنم تھا۔ کمرہ نمبر 52 میں وہ داخل تو طالب علم کی حیثیت سے ہوئے، لیکن جب وہ نکلے تب وہ ایک محبت کے داستان گو، وطن پرست جوان، مزاحمت پسند ادیب اور بلندیِ افکار سے معمور ایک مفکر تھے۔

شیر دل غیب کا اصل نام شیر جان ہے، اور وہ 1985ء میں تربت کی مشرقی جانب پینتیس کلومیٹر دور واقع ایک گاؤں شاپک میں پیدا ہوئے۔ اس گاؤں میں انہوں نے ابتدائی تعلیم پائی، ابھی پرائمری مکمل نہیں ہوئی تھی کہ تربت منتقل ہو گئے۔ 2004ء میں وہاں میٹرک مکمل کی اور پھر کوئٹہ چلے گئے، 2016ء تک کوئٹہ میں مقیم رہے۔ اس دوران اردو، بلوچی اور براہوئی زبانوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2016ء کے بعد سے وہ گوادر میں مقیم ہیں۔

بات ہو رہی تھی کمرہ نمبر 52 کی، اس کمرے کو رہائش گاہ کے بجائے ادبی جائے پیدائش کہیں تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ جہاں ایک انسان نے اپنی ذات سے نکل کر اپنی تحریر میں محبت، درد، قوم و وطن کے درد زدہ حالات کو بیان کیا اور زندگی کو نئی معنویت عطا کی۔

بلوچی زبان میں کمرے کے لیے کوٹی کا لفظ مختص ہے۔ کوٹی نمبر 52 کے نام سے شیر صاحب اپنا تخلیق کردہ ایک شاہکار ناولٹ بھی بلوچ قوم کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اس ناولٹ میں انہوں نے وطن زادوں کے درد بھرے حالات اور ان کی انقلابی فکر کو فکشن کی زبان دے کر دلوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اسی کتاب کو ان کے حقیقی داستان کا آئینہ مانا جاتا ہے۔

نوٹ: راقم الحروف بھی اس عظیم رہائش گاہ میں اپنے طالب علمی کے شب و روز بسر کر چکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔