اُس فکر کے نام جس نے انسانوں کو باکردار بنایا – وطن زاد

53

اُس فکر کے نام، جس نے انسانوں کو باکردار بنایا

تحریر: وطن زاد

دی بلوچستان پوسٹ

میں نہیں جانتا کہاں سے اپنی بات کا آغاز کروں، الفاظ بھی اک دوسرے سے جھگڑنے لگے ہیں، یہ زیر، زبر، شَد، مَد ہر سو شور مچا رہے ہیں۔ آغازِ محبت ہے یا پھر انتہاء عشق کی؟ چاند تارے منہ چپائے بیٹھے ہیں۔ اندھیری رات ہے، وہ بولان میں رقص کر رہا ہے، اُس کے خوشبو کی مہک میں چلتن میں مکمل طور پر محسوس کر رہا ہوں۔ میرے آس پاس کے جھڑی بوٹیوں میں اک عجب سی بے چینی مچ گئی ہے۔ چلتن کے چھوٹے پر مجھے وہ پرواز کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ پری جل کے آبشاروں سے برستی وہ بوند بوند کی کھن کھن مجھے وطن کے ہاتھوں میں کنھکتی چوڑیوں کا احساس دلا رہی ہے۔ پیرِ غیب سے بہتا ہوا وہ پہاڑوں کا لہو مجھے لکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔

بلوچستان تو بہت خوبصورت ہے؛ حسِین وادیاں، روبدار پہاڑ، خوب روح نوجوان، گوادر میں جھومتی ہوئی اُمید کی دیوی، چارو ماچی میں پریوں کا رقص، چُٹوک کے آبشاروں سے بہتا ہوا محبت کا پیغام، چلتن کے سائے میں شال کی یادیں، راسکو کے پہاڑ پر عشق کا ماتم، آماچ کے دامن میں گونجتی ہوئی استاد کی آواز، سرلٹ کے سرزمین سے اڑتی ہوئی میر بالاچ کے لہو کی مہک، ڈال جان میں زبیر کا وہ آخری سجدہ، پھر وطن سے نگہبانی، شاشان کی پُرکشش آنکھیں، جنید کی معصومیت، وہ بالی کا لقب، شاری کی مسکراہٹ، لالی کی سرخی، مائل کی قربانی، اسلم کا جذبہ، مرید کی شاعری، ابصار کے الفاظ، بولان کا درسگاہ، ہربوئی کے پہاڑ، مہمان پرندوں کی آمد، زنگی ناوڑ کے جھیل پر وطن کی میزبانی، مکران کا شعور، پسنی میں تبریز کا طلوع ہونا، پھر گڈانی کے ساحل پر وطن زاد۔

ان سب سے اُس کی محبت، قربانی کا جذبہ، شاید ہمارے پاس وہ واپس نہیں لوٹے گا اور لوٹ جائے بھی تو کس چیز کے غرض پر؟ جب اُسے اتنی خوبصورتیاں، حسن اور سکون ملا ہے، ہم نے سنا ہے اس کا چہرہ قابلِ دید ہے۔ اس کی آنکھیں جنگی جنون سے یک دم لال ہو چکی ہیں۔ وہ بہت کم بولتا ہے اور بڑے ناز سے اپنے وطن کے پہاڑوں میں چہل قدمی کرتا ہے۔ وہ بہت سنجیدہ ہو چکا ہے۔ وہ جب مسکراتا ہے تو پہاڑوں میں ہر طرف اس کے قہقہوں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ وہ بہت خوش ہے۔ وہ جو چاہتا تھا اس نے وہ سب پا لیا۔ یہاں اسے روز وطن زاد سے دوری کھائے جا رہی تھی، جیسے وہ اپنے آپ سے دور ہو چکا ہو۔ اسے اپنے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی تھیں۔ ہم جتنا بھی چاہیں تو اُسے قید نہیں کر سکتے، بھلا کوئی اپنے روح سے بھی الگ رہ سکتا ہے؟ وہ فکر، جہد، ایمان، وہ تو اک وطن زاد کے روح کی غزاہ ہے اور روح تو اُن کا بہت پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا۔ روز وہ اپنے روح کی آواز میر احمد کے انقلابی گانوں میں سنتا تھا۔ اُس کا وہاں جانا جیسے فرض بن چکا تھا۔

اِس تاریک رات میں بولان میں امن کا پرندہ روز اسے پُکارتا ہے۔ چلتن پہ چراغاں ہے۔ ہر سو اس کے نام کی صبح کا نوید لائے بلبل روز اس کے نام کے گیت گاتا ہے۔ پہاڑوں کے نیچے بکھرے ہوئے پتھر اس کے آنے کی خوشی میں اپنے جسم سے جُدائی کا غم بھول چکے ہیں، جیسے وطن کی ہر شے اسے اک جاہ و جلال کے ساتھ استقبال کر چکی ہے۔ اور اس کے چہرے سے بکھرتی ہوئی نظریے کی رنگت پورے وطن کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی ہو۔ اس کے آنکھوں کی چمک سے آسمان پر تارے بھی شرما گئے ہیں۔ جب کوئی بھی بلوچ راہ چلتے وطن زاد کو دیکھ لیتا ہے تو پُرنم آنکھیں لیے اس کے ہاتھ چومتا ہے۔ سنا ہے جو کوئی بھی اُسے دیکھ لے تو اس کے ساتھ چلنے کی تمنا دل میں جاگ اُٹھتی ہے۔ کوئی بھی شخص وطن زاد سے جدائی کا غم برداشت نہیں کر پاتا، لیکن آئے قسمت! وہ اب کسی بشر کے دسترس میں کہاں آئے؟ وہ تو وطن سے عشق کرتے کرتے پوری طرح روبدار کے پہاڑوں کا عکس پیش کرنے لگا ہے۔

گرمیوں میں خراسان کی ہوائیں اسے سورج کے تپش محسوس ہونے نہیں دیتیں اور سیاہ کے چالیس راتیں مکھران کے پہاڑ اپنے سینے میں اک گرم چادر کی طرح اُسے لپیٹ لیتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے آغوش میں سر رکھ کر آزادی کا حسین خواب دیکھ رہا ہوتا ہے اور خزاں کے موسم میں کچھی کی سرزمین اس کے قدم چومنے کو ترس جاتی ہے۔

وہ ہزاروں ماؤں کی دُعا ہے، وہ وطن کے شہیدوں کا آخری ارمان ہے۔ وہ اک شیرزال ماں کا لال ہے، وہ ہمارا پہچان ہے، وہ بلوچستان کے یتیم بچوں کا محافظ ہے، وہ ظلم کے سامنے اک سنگین چٹان ہے۔ آج ہر مظلوم کی آنکھیں اسے دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ وہ شاید اب واپس نہیں لوٹے، مگر میرا دل کہتا ہے اک دن وہ آزادی کا پیغام لے کر ضرور لوٹے گا۔ اُس دن ہم سب ان کا استقبال کریں گے، ان کے ہاتھ چومیں گے، اور اپنے شہر کی گلیوں میں پوری رات دھول کے تاپ پر رقص کریں گے، اک دوسرے کو بھاگتے ہوئے گلے لگائیں گے، ہر شہید کے گھر سے آزادی کا مِستائی لینے جائیں گے۔ ہمارے فضاؤں میں ہمارا پرچم لہرائے گا، دنیا جہاں کے انقلابی وطن زاد سے ملنے آئیں گے، اس کا چہرہ دیکھنا چاہیں گے، اس کی جہد کی داستانیں سننا چاہیں گے، اور تاریخ کی بوسیدہ کتاب کو درمیان سے چیر کر ہمارے جنون کی داستانیں اس میں پیوست کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔