13 نومبر یوم شہدا تاریخی فیصلہ – فتح جان

53

13 نومبر یوم شہدا تاریخی فیصلہ

تحریر: فتح جان

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایس او آزادنے 2010 میں چیئرمین بشیر زیب بلوچ کی قیادت میں مرکزی کمیٹی اجلاس میں متفقہ طورپر ایک تاریخی فیصلہ کیا کہ 13 نومبر کو تمام بلوچ شہداء کی یاد مشترکہ طور پر منایا جائے گا۔ کئی اطراف سے مخالفت کے باوجود آج یہ دن بلوچ قوم نے شہدا دن کی مناسبت سے قبول کرکے اسے ایک قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

شہدائے آزادی قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں، ان کی لازوال قربانیوں پر قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ شہیدوں کے لہو سے حریت کے دیپ جلتے ہیں انہی کے عظیم اور لازوال قربانیوں کے بدولت ہم آج شان سے کہتے ہیں کہ ہم بلوچستان کے والی وارث اور بلوچ ہیں، وطن مادر کی محبت ‘ غلامی سے نفرت کو لیے دھرتی ماں کے فرزند جانوں کے پروا کیے بغیر جہد مسلسل کا علم ہاتھ میں لے کرظلم کے خلاف اپنے سے کئی گنا بڑے طاقتور سے نبرد آزما ہوکر جام شہادت نوش کرتے ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ امر ہوتے ہیں۔

بلوچستان وہ خوش قسمت ماں ہے جس کے ہزاروں فرزند مادر وطن پر مر مٹے نیو کاہان میں کوہ چلتن کے دامن بولان کے پہاڑی سلسلہ اور بلوچستان کے ہر کونے میں وطن مادر کے فرزند سپرد گلزمین ہیں ” وہ لوگ جنہوں نے خون دے کر گلشن کو رنگت بخشی ہے ” دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں ” اگر ہم سال کے 365 دنوں کے ہر گھنٹے میں اپنے شہیدوں کے برسی منا لیں تو یہ دن بھی کم ہونگے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ دھرتی کے فرزند شہادت کا رتبہ پا چکے ہیں اور آزادی کا تمنا لیے ہر شہید وطن کا شہید ہے اور اپنے ماں کا شہزادہ ہے کوئی شہید کسی شہید سے افضل یا کمتر نہیں ہے اور 13 نومبر کا فلسفہ یہی ہے بلوچستان کی آزادی کے لیئے جان نچاور کرنے والے تمام شہداء کا تحریک آزادی میں ایک مقام ہے ۔

13نومبر ایک طویل تاریخ پس منظر رکھتا ہے اور اس دن کو شہداء کا مشترکہ دن منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت اور قومی آزادی کی طویل جدوجہد کو نہ صرف اجاگر کرنا ہے بلکہ واضح اور دوٹوک موقف کے ساتھ عالمی برادری کے توجہ بھی مبذول کرانا ہے کہ ہزاروں شہیدوں کا ارمان اپنے وطن کی آزادی ہے 13نومبر1839کو پہلی بار انگریز سامراج نے بلوچ وطن پر قبضہ کرکے بلوچ قومی آزادی کو سلب کرکے دنیا کے نقشہ میں موجود آزاد بلوچ مملکت و حکومت پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ قائم کی بلکہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ بلوچ قومی وحدت کو پارہ پارہ کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ بلوچ زمین اور آبادی کو تقسیم کیا اس وقت بلوچ ریاستی امور کے سربراہ میر محراب خان تھیں جنہوں نے انگریز غاصبوں کے خلاف علم آزادی بلند کرکے بلوچ قومی لشکر کے ساتھ بلوچ وطن کی آزادی اور دفاع کے لئے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف بڑے پیمانے جنگ کا آغاز کیا اور اس قومی جنگ کے دوران شہید محراب خان اور ان کے ساتھی جام شہادت نوش کرکے آنے والے نسلوں کو جدوجہد کے لئے اپنی خون سے روشنی اور راہ دکھاتے ہوئے عظیم تاریخ رقم کرکے انگریز سامراج پر واضح کیا کہ بلوچ قوم اپنی مال و جان قربان کرسکتے ہیں لیکن کسی کی جی حضوری اور تابعداری نہیں کرسکتے اور یہی فکر و فلسفہ بلوچ تاریخ کو قابل فخر بنادیا ہے۔

محراب خان اور ان کے ساتھیوں کی آزادی کامشن جاری ہے 175 سال سے بلوچ قوم کے بہادر فرزند انگریز اور آج پاکستانی ریاست کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جو لازوال قربانیوں اور انمٹ داستانوں کی تاریح رقم کررہے ہیں اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے مادر وطن کے سپوت اپنے جانوں نظرانہ پیش کررہے ہیں۔ 1948، 1958، 1973سے لے کر اب تک ہزاروں بلوچ فرزند آزادی کے روشن کل کے لئے اپنا آج قربان کرکے اپنے لہو سے آزادی کے چراغ کو ایندھن دے کر روشن کیا ہے، 1839 سے لے کر اب تک آزادی کے لئے کام آنے وہ تمام سپوت ہمارے قومی ہیرو ہیں، ہزاروں معلوم و نامعلوم شہدا ء جنہوں نے آزادی کی صبح کواگر چہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہوں نے غلامی کے خلاف بیش بہا قربانیاں دیکر آزادی کی جدوجہد کے وجود کو زندہ رکھا ہے ان کی تقلید اور پیروی کرتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کا جنگ جاری ہے۔

شہداء بلوچستان کے خون کا بہترین انتقام آزاد بلوچستان ہے’ اور آزادی جیسے عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لیے ایک قوم بننا ہوگا نہ کہ پارٹی پرستش سے آزادی ملے گا۔ ایک بلوچ فرزند زندگی کو ہاتھ میں لے کر موت کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے اس کا مقصد عظیم ہوتا ہے وہ اپنے خون کے قطروں سے جہد آزادی کے عظیم قربانیوں کو تاریخ کے اوراق میں لکھتا ہے تاکہ آنے والے نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوجائے لیکن بد قسمتی سے یہاں شوق لیڈری میں اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجدین بنا کر سب شہداء کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر گروہی مفادات کے پیچھے پڑھے ہیں لیکن بلوچ قوم اور اسکا حقیقی جہد کار یہ فیصلہ کرچکے ہیں 13 نومبر کو یوم شہداء بھر پور طریقہ سے مناکر مفاد پرستوں اور ریاست دشمن کے سامنے یہ واضح کیا جائے گا کہ شہید کا ایک ہی ارمان آزادی اور انقلاب۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔