شہید نظام جان عرف ساحل – مزدک بلوچ

58

شہید نظام جان عرف ساحل

تحریر: مزدک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچوں میں ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی کسی طاقت نے بلوچوں کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو بلوچ نے ہمیشہ ہی مزاحمت کو چنا اور اس کے خلاف لڑتے رہے، اور جب تک قابض نے اپنا ارادہ ترک نہیں کیا تو بلوچ نے بھی مزاحمت کے دامن کو نہیں چھوڑا، وہ چاہے پرتگیزی ہوں جن کے خلاف حمل جیئند نے جنگ لڑی یا چاہے انگریز ہوں جن کے خلاف میر محراب خان یا خیربخش مری جن کے خلاف کھڑے رہے، یا حالیہ جدوجہد جہاں پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو ان کے خلاف اسی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے نواب خیر بخش مری، بالاچ مری، حیربیار مری، استاد اسلم، بشیر زیب اور لاکھوں بلوچوں نے مزاحمت کو چنا۔ انہی لوگوں کی بدولت آج بھی بلوچ ایک مستحکم پوزیشن لیے مزاحمت کر رہی ہے، چاہے وہ بندوق ہو یا قلم۔ بلوچ اس مزاحمت میں پیش پیش ہیں جن میں بلوچ مردوں کے علاوہ بلوچ عورتیں بھی شامل ہیں، اور ہر عمر کے نوجوان اس جدوجہد میں شامل ہیں۔

ان ہی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان شہید فدائی نظام جان ہیں، جن کا کوڈ نام ساحل ہے۔ نظام جان کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی سے ہے۔ پسنی خود میں ایک تاریخ سمائی ہوئی ہے۔ یہ وہی زمین ہے جس نے حمل جیئند جیسے تاریخی انسان کو جنا، جس نے پرتگیزیوں کی نیندیں حرام کردیں۔ شہید نظام جان نے بھی اپنی آنکھیں پہلی بار اسی سرزمین پر کھولی، جہاں وہ مزاحمت، مزاحمت کار اور مزاحمت کی تاریخ کو دیکھ سکتا تھا۔ اس نے چھوٹی عمر میں ہی پروٹسٹ وغیرہ دیکھی تھی شاید اس وقت وہ یہ سمجھ نہ پا رہا تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے لیکن جیسے ہی وہ تھوڑا بڑا ہوا تو چیزیں اس کے سامنے عیاں ہوگئیں۔ نظام جان نے شہید نصیر کمالان کو دیکھا جو پسنی کے لوگوں کو لیڈ کر رہا تھا اور لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ جنگ ہی واحد حل ہے، نظام جان نے نصیر کمالان کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور شاید سوچا ہوگا کیوں؟ کیوں ایک انسان کو سچ کہنے پر شہید کیا جاتا ہے۔ نظام جان، مبارک قاضی کی شعروں کو سن رہا تھا اور اس باپ کو بھی جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو وطن کے لیے قربان کردیا تھا؟ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ کیوں ایک باپ اپنے بیٹے کو شہادت کے راستے پر بھیجنے کے باوجود خوش ہے، فخر کر رہا ہے، پھر وہ بیٹا (کمبر قاضی) جو ایک ڈاکٹر تھا۔ اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ ایک آرام دہ زندگی چھوڑ کر پہاڑوں پر گیا۔

انہی اتار چڑھاؤ کے بیچ شہید فدائی نظام کا صرف جنم ہی نہیں بلکہ تربیت بھی ہو رہی تھی۔ شہید نظام کا تعلق ببر شور سے تھا، انہوں نے اپنا میٹرک اپنے آبائی علاقے سے کیا۔ شہید نظام کو جس نے قریب سے دیکھا وہ جان سکتا ہے کہ وہ کتنا ہنس مکھ لڑکا تھا، انتہائی خوش مزاج۔ وہ جن کے بھی ساتھ رہا چاہے علاقے میں یا پہاڑوں میں اس کا مزاج اور مذاق کرنے کا طریقہ ویسا ہی تھا۔ پہاڑوں میں لوگ (اس کے ساتھی) آج بھی اس کی مثال دیتے ہیں۔

میٹرک کے بعد نظام جان آگے کی پڑھائی کے لیے کوئٹہ گئے، جہاں نظام جان نے کتابوں کے ساتھ اپنا تعلق بنا لیا، کبھی چے گویرا، کبھی فیڈل کاسترو کبھی کسی اور انقلابی لیڈر کو پڑھتا تھا۔ وہ انتہائی خاموش انسان تھے۔ نظام جان نے انتہائی کم عمر میں خود کو پالیا۔ کتابوں اور حالات نے اس پر ایسا اثر چھوڑ دیا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی بلوچ مزاحمت میں شامل ہوگا۔

بقول فینن، ایک دن مظلوم خود کو پا لے گا۔ نظام جان نے بھی خود کو پا لیا اور فیصلہ بھی کرلیا۔ بقول فرارے، جب ایک مظلوم قوم تشدد کو چنتا ہے یا جنگ کرتا ہے تو اس میں اس عمل میں نفرت نہیں ہوتی۔ جب ایک قابض تشدد چنتا ہے تو وہ لوگوں کو غلام بنانے، استحصال کے لیے تشدد کرتا ہے لیکن مظلوم بندوق اٹھاتا ہے تو اس میں محبت ہوتی ہے۔ اپنی زمین سے محبت، اپنے لوگوں سے محبت، وہ انسان کی بقا اور اس سے محبت کے لیے بندوق اٹھاتا ہے۔ اس پورے عمل میں وہ خود کو پا لیتا ہے۔ جب مقبوضہ ہوتے ہیں یا غلام ہوتے ہیں تو ان میں ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔ سب کچھ دیکھنے باوجود ان میں ایک ڈر یا خوف ہوتا ہے کہ اگر میں نے بندوق اٹھائی تو کیا ہوگا۔ لیکن نظام جان زندگی کی حقیقت کو سمجھ گیا، وہ جانتا تھا کہ غلامی کی زندگی سے بہتر ہے۔ اس نے یہ فیصلہ محض 18 سال کی عمر میں کیا۔ ہاں شاید لوگ یہ سمجھیں کہ جی 18 سال بہت کم ہے، بچہ تھا، یہ شاید ابھی زندگی کو انجوائے کرنا تھا، لطف اندوز ہونا تھا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمیں حالات کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ واقعی عمر اپنی جگہ ہوتی ہے لیکن وار زون میں انسان پیدا ہوتے ہی وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے، تو اس حالات میں زندگی سے لطف کی امید رکھنا ہی محال ہے۔

جب ہم چھوٹے تھے تو پڑھتے تھے کہ بھگت سنگھ صرف 23 سال کا تھا جب وہ شہید ہوگیا تو ہندوستان میں بھی لوگ کہتے تھے کہ جی ابھی بہت چھوٹا تھا لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ بھگت سنگھ شعور سے لیس تھے، اسی طرح شہید نظام جان میں بھی اتنا شعور تھا کہ فیصلہ کر سکے اور اس پر ڈٹے رہے۔ شہید نظام جان جنگ میں جانے کے بعد فدائی کرنے کا فیصلہ کیا جو خود میں ایک منفرد فیصلہ تھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ وہ اب زندہ نہیں رہے سکے گا، وہ موت سے ملنے جا رہا تھا۔ یہ ایک جذباتی فیصلہ نہ تھا بلکہ شعور سے لیس فیصلہ تھا کہ ایک 20 سال کا نوجوان جو عام ملک میں زندگی کرنے کا سوچتا ہے لیکن اس نے قوم کے لیے زندگی کو قربان ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے موت کو زندگی سے برتر سمجھا اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ شہید نظام جان کی شعور کا پیمانہ آپ ان کی آخری پیغام سے لگا سکتے ہیں کہ ایک 20 سال کا نوجوان کس طرح ہر چیز سے واقف اور کس طرح اپنے فیصلے پر ڈٹا ہوا ہے۔ شہید نظام جان آپریشن درہ بولان میں بطور فدائی حصہ تھے۔ جنگ کے آغاز میں ایک گولی آپ کے سر سے چھو کر گزری تھی لیکن آپ پرسکون نظر آئے اور فدائی فلسفے کو اپناتے ہوئے آخری گولی سے خوف کو امر کردیا۔ اور آپ کو پسنی کے پہلے فدائی ہونے کا اعزاز مل گیا جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

کون سوچ سکتا تھا کہ پسنی کا ایک نوجوان جو اپنی زندگی میں مدہوش تھا وہ کبھی بولان کی سرزمین میں لڑ رہا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔