بلوچ قوم کی فکری بقا نظریاتی قید یا قومی بیداری کا زینہ؟ – چاکر بلوچ

40

بلوچ قوم کی فکری بقا نظریاتی قید یا قومی بیداری کا زینہ؟

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی محکوم قوم کے لیے ‘جنگِ فکری’ (Intellectual Warfare) یا فکری فریم ورک کی تشکیل سب سے اہم ہوتی ہے۔ ہمارے لیے، بلوچ قوم کے لیے، سب سے بڑا چیلنج اپنی آئندہ نسل کو ایک وسیع المشرب، فکری طور پر آزاد، اور سوال کرنے والی سوچ دینا ہے۔
مسلم معاشرے میں عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ بچے کو بلوغت کی عمر سے پہلے صرف ایک مخصوص مذہبی سانچے میں ڈھال دیا جائے، اور کسی بھی چھوٹی سی گستاخی پر فوراً فتوے لگا دیے جاتے ہیں۔ اس محدود نقطہ نظر کے تحت اکثر مسلمانوں کی یہ سوچ بھی ہوتی ہے کہ کسی غیر مسلم یا دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے شخص کی بات نہیں سننی چاہیے، خواہ وہ کتنی ہی منطقی کیوں نہ ہو۔ بطور بلوچ اور ایک غلام قوم کے فرد، اگر ہم اپنی نسلوں کو بلوغت سے پہلے صرف اور صرف ایک محدود مذہبی درس دیں گے، تو ہم اپنی آئندہ نسل سے کسی خیر کی امید نہیں رکھ سکتے۔

فکری تربیت: والدین سے قومی تقاضے

میرا مقصد ہرگز بچوں کو شریعت یا دینی علم سے دور رکھنا نہیں، بلکہ بطور بلوچ، ہماری اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے والدین ہمیں ایک ایسی قومی فکری لغت سے روشناس کرائیں جو ہمیں محکومی سے نجات دلانے میں معاون ہو۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ والدین ہمیں بلوچی اور براہوئی ادب سکھاتے، ہمیں قومی تاریخ پڑھاتے، ہمیں فلسفیانہ سوالات کرنا سکھاتے، اور ہمیں سیاست سمجھاتے۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا چاہیے کہ کس طرح اپنی زبان، ادب، تاریخ اور سیاسی بصیرت کا گہرا شعور حاصل کیا جا سکتا ہے اور کس طرح تنقیدی فکر (Critical Thinking) کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

نظریاتی انتہاؤں کا نقصان: غیر تنقیدی رویہ

ہمارے مذہبی دوست احباب اکثر یہ تنقید کرتے ہیں کہ ہم قوم پرست (نیشنلسٹ) مغربی یا کفار کے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ ایک قوم پرست ہونے کے ناطے، ہم نہ مغرب نہ کسی اور آئیڈیالوجی کو پروموٹ کر رہے ہیں؛ ہم صرف اپنی قومی فکری لغت کو پروموٹ کرتے ہیں۔ جو بھی کتاب بلوچوں کو یہ وسیع فکری لغت سکھاتی ہے، خواہ وہ کسی مذہبی شخص کی لکھی ہو یا کسی ملحد کی، ہم اسے عزت اور احترام سے سنتے اور پڑھتے ہیں۔

لیکن افسوس کہ لغت کی اس جنگ میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے دوست احباب ایک ہی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ایک فریق مذہبی لوگوں پر مسلسل تنقید کرتا ہے اور اپنے بچوں کو مذہب کے خلاف درس دیتا ہے، جب کہ دوسرا فریق صرف مذہب اور محدود دنیوی تعلیم (صرف معیشت کے لیے) کی تلقین پر زور دیتا ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں فریقین ایک ہی ہیں: ایک ٹیم ‘Anti-Atheism’ اور دوسری ٹیم ‘Anti-Religion’۔ یہ دونوں فریق اگر ایک دوسرے کو عزت اور احترام سے نہیں سنیں گے اور اپنے بچوں کو کسی یکطرفہ Cult آئیڈیالوجی کا پیروکار بنائیں گے، تو اس کے برے اثرات ہماری آئندہ نسلوں اور بالخصوص ہماری قومی تحریک پر پڑ سکتے ہیں۔

قومی تحریک کی بنیاد: احترامِ اختلاف اور فکری رواداری

اس مسئلے کا حل صرف ایک ہی ہے: فکری رواداری اور احترامِ اختلاف۔ دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ (Compromise) کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو عزت و احترام سے سننا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو کسی بھی ایسی آئیڈیالوجی کے تابع نہیں کرنا چاہیے جس سے قومی تحریک پر منفی اثر پڑے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونوں فریقین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر قوم ان کے راستے پر چلے گی تبھی بلوچ تحریک کو تقویت ملے گی۔ یہ ہرگز درست نہیں ہے۔

وجہ یہ ہے کہ مذہبی عقائد (ایمان) اور سائنسی حقائق (Theories) کے درمیان ہونے والی بحثیں صدیوں سے جاری ہیں اور کوئی بھی فریق حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کر سکا کہ کون حق پر ہے۔ ایمان یقین کا معاملہ ہے اور سائنس امکانات کی جدوجہد میں ہے، جس کی تھیوریز بھی مکمل نہیں ہیں۔ جو بحث بلوچ قوم کو پیچیدگیوں کی طرف دھکیل رہی ہے، اسے قومی مباحثوں کا زینت کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ہمیں ایسی فکری بحثوں کو قومی مرکز سے دور رکھنا چاہیے، جن کا حتمی فیصلہ صدیوں سے نہیں ہو سکا ہے۔ ہماری اولین ترجیح قومی وجود اور تحریک کی لغت ہونی چاہیے۔

لغت کا سفر: انسانی فطرت اور تربیت

انسانی فطرت ہے کہ انسان کچھ مراحل سے گزرتا آیا ہے۔ ایک شعر میں اس کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے:
“فتور ہوتا ہے ہر عمر میں جدا — کھلونے، معشوقہ، رتبہ، خدا۔”

یعنی انسان بچپن میں کھیل کود سے لطف اٹھاتا ہے، جوانی میں محبت کی ضرورت محسوس کرتا ہے، پختگی میں عزت و احترام اور معیشت کی جدوجہد کرتا ہے، اور بڑی عمر کو پہنچ کر روحانیت (Spirituality) کی طرف مائل ہوتا ہے، کیونکہ اس کے اکثر تقاضے پورے ہو چکے ہوتے ہیں۔

انسان بالآخر وہی راستہ اختیار کرتا ہے، جس طرح کی لغت اور تربیت اسے سکھائی گئی ہو اور جس ادارے سے وہ وابستہ رہا ہو۔ مثال کے طور پر، ہمارے اکثر والدین اور اکابرین دنیا سے رخصت ہوتے وقت خود کو مذہبی بنا درست سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں طفلانہ دور سے ہی مذہبی لغت سکھائی گئی ہے، خواہ انہیں مذہب کے بنیادی قواعد تک کا علم نہ ہو۔ سارا کھیل ہی لغت کا ہے۔

اختتامیہ اور قومی عزم

اب ہمیں بلوچوں کو خود سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو جو فکری لغت سکھا رہے ہیں، آیا وہ قومی تحریک کو تقویت دے رہی ہے یا نقصان پہنچا رہی ہے؟ بلوچ قوم کی فکری بقا کے لیے، ہماری تحریک کی لغت اولیٰ حیثیت رکھتی ہے یا دیگر کوئی نظریاتی وابستگی؟ اگر ہمیں اس ظالم دنیا میں زندہ قوموں کی طرح زندہ رہنا ہے، تو ہمیں اپنی لغت (Mindset) کو زندہ، وسیع، آزاد اور سوال کرنے والا رکھنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔