کوئٹہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قید رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ حقوق کے کارکنوں کے مقدمات کو دانستہ طور پر غیر منصفانہ طریقے سے تاخیر کا شکار بنایا جارہا ہے۔
نادیہ بلوچ کے مطابق حکومت کی ہدایت پر مقدمات کی سماعتیں جیل کے اندر منتقل کی گئی ہیں، جس کے بعد عدالتی کارروائی تقریباً تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا ہر چند دن بعد نئے اور من گھڑت الزامات سامنے لائے جا رہے ہیں تاکہ رہنماؤں کی رہائی کے عمل کو مزید مشکل بنایا جا سکے۔
ان کے مطابق صرف کوئٹہ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنوں کے خلاف 25 ایف آئی آرز درج ہیں جبکہ مستونگ میں مزید 5 مقدمات قائم کیے گئے ہیں، جب بھی کسی ایک کیس میں ضمانت حاصل ہوتی ہے فوراً نیا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ قید کا سلسلہ برقرار رہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی ٹی ڈی، پولیس، عدلیہ، صوبائی حکومت اور ریاستی ادارے اجتماعی طور پر عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں ججز بار بار بہانہ بناتے ہیں کہ چالان جمع نہیں ہوئے یا دستاویزی خامیاں موجود ہیں، تاکہ سماعت آگے نہ بڑھ سکے۔
نادیہ بلوچ نے کہا کہ جیل کے اندر مقدمات کی سماعت محض اس لیے کی جا رہی ہے کہ میڈیا کی رسائی محدود ہو اور ان رہنماؤں کی آواز دب جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں سابق سینیٹر مشاق احمد نے کوئٹہ میں بی وائی سی رہنماؤں سے ملاقات کی اجازت طلب کی، مگر انہیں ملاقات سے روک دیا گیا۔
نادیہ بلوچ کے مطابق انہیں اسی طرح روکا گیا جس طرح اسرائیلی افواج نے انہیں غزہ جانے والی امدادی کشتیوں کے ساتھ جانے سے انھے روکا تھا سوال یہ ہے کہ پھر پاکستانی فورسز اور اسرائیلی فورسز میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟
آخر میں نادیہ بلوچ نے بلوچ عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے رہنماؤں کو نہ بھولیں، یہی ریاست کی حکمتِ عملی ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کو قید میں رکھ کر بلوچستان میں جاری مظالم کو پوشیدہ رکھا جائے اور افسوس کہ وہ اس میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

















































