تنظیمی رہنماؤں کا جیل ٹرائل، سیاسی انتقام کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

33

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ آج تنظیم کے گرفتار رہنماؤں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، شاہ جی بلوچ ، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ کے کیس کے متعلق اے ٹی سی کورٹ 1 میں بیل ایپلیکیشنز پر آرگیومنٹ کیا گیا۔ اس پیشی میں نو ایف آئی آرز پر دلائل دیے گئے، جن پر عدالت نے اہم نکات نوٹ کرتے ہوئے فیصلہ چھ نومبر تک کے لیے محفوظ کر لیا۔

بیان میں مزید کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما گزشتہ سات ماہ سے قید ہیں۔ انہیں پہلے تین ماہ تک تھری ایم پی او (3 MPO) کے تحت غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، اور بعد ازاں ان پر جھوٹے مقدمات اور من گھڑت ایف آئی آرز درج کر کے مسلسل قید میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ سیاسی انتقام اور ریاستی جبر کی واضح مثال ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ معمولی نوعیت کے سیاسی کیسز کو انسدادِ دہشتگردی عدالت میں درج کر کے قانونی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا مقصد سیاسی اختلاف رکھنے والی آوازوں کو دبانا اور بلوچ عوام کی جمہوری جدوجہد کو طاقت اور تشدد سے ختم کرنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہاکہ جبکہ کیس میں مختلف تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، کبھی ریمانڈ کے زریعے، کبھی جج کی غیر حاضری، اور اب جیل کے اندر ٹرائل کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ مقدمات کو غیر ضروری طور پر طول دیا جا سکے۔

آخر میں کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ہمیشہ سے ہر طرح کے جبر، ناانصافی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ہم دنیا کے سامنے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے رہیں گے، اور ہر جبر کا مقابلہ جمہوری سیاسی طریقے سے کر کے دنیا کے سامنے ریاست کے اپنے ہاتھوں آئین شکنی کو عیاں کرتے رہیں گے۔