اذیت کا ایک سال
تحریر: نذر بلوچ قلندرانی
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو سال صرف ایک لفظ ہے، لیکن جینے والے کے لیے یہ 365 دن، 525,600 منٹ، یا 31,536,000 سیکنڈز ہوتے ہیں، مگر سہنے والوں کے لیے یہ ایک تاریخ بن جاتی ہے، جہاں ہر طرف مایوسی، بےبسی، درد، کرب، آزمائش اور مصیبتوں کا انبار ہوتا ہے۔ یہ کہانی کسی اور کی نہیں، بلکہ میں اور میرے خاندان کی ہے، غربت ہمارے نصیب میں پچپن سے لکھی گئی تھی، اور مصیبتوں نے بھی ہمارا گھر کبھی خالی نہیں چھوڑا ہے
صرف یہی نہیں بلکہ اس مشکل کی گھڑی میں مجھ پر جعلی کیسز بنا کر غیر قانونی تشدد اور ہراساں بھی کیا گیا، یوں تو کہنے کو میرا درد صرف ذاتی نہیں بلکہ بلوچ اور دیگر محکوم قوموں کے مشترکہ درد کی عکاسی کرتا ہے جو عرصہ دراز سے مظلوم اور محروم طبقے کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اپنی جگہ مگر معاشرتی خاموشی بھی اتنی افسوسناک تھی کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ پڑوسی کی عورت پر سب کی نظر ہوتی ہے، وہ کیا کرتی ہے، کہاں جاتی ہے، مگر کوئی یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اس کے بچے بھوکے بھی ہو سکتے ہیں، اسی طرح اگر آپ میری صحافتی ذمہ داریوں اور گھریلو ذمہ داریوں پر غور کریں تو شاید ایک عورت کی عزت اور ایک صحافی کی کردار پاک اور صاف نظر آ سکے، ہمارے معاشرے میں نوے فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر صحافی قلم اور ضمیر فروش ہے، اسی لیے میرے خاموش رہنے پر جہاں ایک طرف مجھے طنز اور تنقید کا سامنا ہے، وہیں دوسرا طبقہ خوش نظر آتا ہے
یقیناً ہر کسی کو تنقید کرنے، آزادی رائے رکھنے اور اپنے جذبات بیان کرنے کا حق حاصل ہے، مگر کسی کی عزت نفس مجروح کرنا اور ان کی جدوجہد کو فراموش کرنا افسوسناک اور گھٹیا عمل ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو میرے ساتھ مسلسل ہوتا آ رہا ہے۔
میرے والد، جو پچھلے ایک سال سے کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہے ہیں، اسی دوران ایک حادثے نے میری والدہ کو بھی معذور بنا دیا۔ معاشرتی ناانصافی، ظلم اور لوگوں کے طنز نے ہمیں بہت تکلیف پہنچائی، اور اس کا اندازہ صرف وہی شخص لگا سکتا ہے جس پر یہ دن گزرے ہوں۔ ہم نے اپنے اندر اتنی بڑی جنگ لڑنے کے باوجود سماج میں ابھرتی ناانصافیوں کے خلاف قلم اٹھایا، مگر بدقسمتی سے میرے حصے میں صرف طنز اور تکلیف ہی آئے ہیں
والد کا کینسر میں مبتلا ہونا اور والدہ کا حادثے میں معذور ہونا ہمارے گھر کی رونق چھین گیا۔ پچھلے ایک سال سے مایوسی، بےبسی، درد، کرب، آزمائش اور مصیبتیں ہماری زندگی پر چھائی رہی ہیں، اور بہت سے منافق چہرے بھی بےنقاب ہوئے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اتنی بڑی آزمائش کے باوجود ہمیں کسی کی مالی مدد کی محتاج نہیں ہونا پڑا، اور ہم آئندہ بھی اسی یقین پر قائم رہیں گے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ جب آپ کسی کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، تو اس پر باتیں نہ بنائیں۔ ہوسکتا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی جنگ لڑ رہا ہو جس کا ہر کوئی واقف نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔












































