انصاف کا قتل – ٹی بی پی اداریہ

30

انصاف کا قتل – ٹی بی پی اداریہ

پاکستان سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے ماورائے عدالت قتل کو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تربت میں والدین کے سامنے حیات بلوچ کو قتل کرنے والے بلوچستان فرنٹیئر کور کے اہلکار شادی اللہ کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی۔ تاہم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دو ایک کے تناسب سے اکثریتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے مجرم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کو 13 اگست 2020 کو تربت کے علاقے آبسر میں ان کے والدین کے سامنے ایف سی اہلکار شادی اللہ نے آٹھ گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل نے بلوچستان میں شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا، جس نے ریاستی جبر کے خلاف ایک مزاحمتی لہر پیدا کی جو آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ تاہم عوامی مزاحمت اور عدالتی فیصلوں کے باوجود بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور جبری گمشدگان کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکا۔

حیات بلوچ کے قتل کو پانچ سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر ان برسوں میں جعلی پولیس مقابلوں کے نام پر سینکڑوں بلوچ نوجوان ماورائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں ہر بڑے سانحے کے بعد بلوچ نوجوانوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دینے کا عمل بدستور جاری ہے۔ ریاستی جبر کے ایسے واقعات کے خلاف ابھرتی ہوئی آوازوں کو طاقت کے زور پر دبایا جا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب انہی علاقوں میں امن و ترقی کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔

بلوچستان میں عدالتوں کے فیصلے عملاً کبھی نافذ نہیں ہوئے۔ مقتدر قوتیں طاقت کے زور پر انصاف کا قتل کر کے اپنے فیصلے بلوچ عوام پر مسلط کرتی رہی ہیں۔ مستقبل قریب میں بلوچستان کے حالات کے بدلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم عدالتی انصاف کی غیرموجودگی کے باوجود حیات بلوچ اور دوسرے نوجوانوں کے لئے آوازیں بلوچستان سے اٹھتی رہیں گی۔