اختیارِ بحالی یا کنٹرول کا زوال؟
بلوچستان بھر میں حملوں نے حکومت کے دعوؤں کو چیلنج کردیا۔ ٹی بی پی رپورٹ
گذشتہ ہفتے جمعرات کی شام کے وقت بلوچستان کے ضلع خضدار کے تحصیل نال کے علاقے پر بڑی تعداد میں ہتھیار بند مسلح جنگجوؤں نے عارضی طور پر قبضہ کر لیا، اس دوران حملہ آوروں نے ایک پولیس چیک پوسٹ اور تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر قبضہ کر کے چین۔پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک شاہراہ پر ٹریفک روک دی۔
یہ جنگجو جمعے کی صبح تک علاقے سے واپس چلے گئے اور پیچھے جلی ہوئی پولیس گاڑیاں، بھاری مشینری، سنسان سڑک چھوڑ گئے۔
یہ حملہ ایک ہی دن کے دوران بلوچستان بھر میں ہونے والے متعدد مربوط حملوں میں سے ایک تھا ایک ایسا سلسلہ جس نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے حالیہ بیان کو چیلنج کر دیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں ریاست کی رِٹ مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے۔
مربوط حملوں کی لہر
چوبیس گھنٹوں کے دوران بلوچ مسلح گروپس نے خضدار، مستونگ، قلات، کیچ، اور آواران کے اضلاع میں حملوں کی ایک لہر شروع کی جن کا ہدف پاکستانی فورسز، سرکاری دفاتر اور تعمیراتی کمپنیاں تھیں۔
سرکاری اور مقامی ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران کم از کم 27 افراد کو اغوا کیا گیا، دس سے زیادہ گاڑیاں جلا دی گئیں اور متعدد فوجی اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے۔
نال سے ذرائع کے مطابق مسلح جنگجوؤں نے تقریباً چھ گھنٹے تک علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور 18 پولیس اہلکاروں اور کمپنی کے ملازمین کو حراست میں لے لیکر اپنے ہمراہ لے گئے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق علاقے میں داخل ہونے والے مسلح افراد نے اس دوران فورسز چیک پوسٹ پر قبضہ کیا، سرکاری اسلحہ اور گاڑیاں ضبط کیں اور بھاری مشینری کو آگ لگا کر اردگرد کے پہاڑی علاقوں میں واپس چلے گئے۔
لیویز حکام نے بتایا کہ دو درجن سے زیادہ مسلح افراد جمعرات کی رات کیمپ کو گھیرے لیا اس واقعہ میں کم از کم آٹھ گاڑیاں مکمل طور پر جل گئیں اور باقی مشینری کو بھی نقصان پہنچا۔
ان حملوں کے لہر کے دوران جو جمعرات اور جمعہ کے درمیان دیکھے گئے، جنوب میں، آواران کے جھاؤ نوندڑہ کے علاقے میں مسلح افراد نے فوجی گشتی دستے پر گھات لگا کر حملہ کیا، فورسز حکام نے اس حملے میں چار اہلکاروں کی ہلاکت اور ایک کے زخمی ہونے کی تصدیق میڈیا کو کردی تھی۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے آوران میں پاکستانی فورسز کے اس دستے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں نے پہلے پیدل گشت کرنے والے چار فوجیوں کو نشانہ بنایا اور جب ایک بکتر بند گاڑی مدد کے لیے پہنچی تو اس پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی، جس کے باعث وہ پیچھے ہٹ گئی۔
تنظیم کے ترجمان میجر گہرام بلوچ جنہوں نے اس حملے کا بیان میڈیا کو بھیجا، انکے مطابق ایک کواڈ کاپٹر ڈرون اور نِگرانی کیمرے بھی تباہ کیے گئے اور اس کے بعد ان کے جنگجوؤں باحفاظت اپنے مقامات پر پہنچ گئے تھے۔
دریں اثنا بلوچ لبریشن آرمی نے کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے کیچ، قلات، اور مستونگ اضلاع میں کارروائیاں کیں، جن میں ریموٹ کنٹرول دھماکے اور ناکہ بندیاں شامل تھیں۔
تنظیم کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران کوئٹہ۔کراچی شاہراہ کو منگچر کے قریب ایک گھنٹے سے زیادہ عرصے تک بند رکھا جہاں انکے جنگجوؤں کا پاکستانی فوجیوں سے جھڑپیں ہوئیں جس میں دو پاکستانی فورسز اہلکار ہلاک ہوئے۔
بی ایل اے کے مطابق ان کے سرمچاروں نے بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے زامران میں ایک ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے پیدل چلنے والے فوجیوں کو نشانہ بنایا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوا، جبکہ مستونگ کے قریب اسپلنجی کے مقام پر ایک کاروائی میں پاکستانی فورسز کے لیے جانے والی راشن کو قبضہ میں لیا جس میں منشیات و راشن شامل تھے۔
جمعرات کو شروع ہونے والے ان مربوط حملوں کے دوران جنوبی بلوچستان کے مختلف حصوں میں مقامی ذرائع نے بتایا کہ سی پیک روٹ کے ساتھ ساتھ اسی طرح کے عارضی چیک پوائنٹس قائم کیے گئے، جن کی وجہ سے فوجی قافلوں کی نقل و حرکت محدود ہوئی اور سرکاری تنصیبات تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
سرکاری دعوے اور زمینی حقائق
یہ تازہ ترین مسلح سرگرمیوں میں اضافہ صرف چند دن بعد سامنے آیا ہے جب وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت نے بلوچستان بھر میں ریاست کی رِٹ بحال کردی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس ماہ کے آغاز میں نیشنل یوتھ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کی موثر حکمرانی اور مضبوط سیکیورٹی اقدامات کی تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ برسوں کی بدامنی کے بعد امن و امان کامیابی سے بحال ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے یہ وعدہ پورا کردیا ہے کہ وہ خوف کے شکنجے سے بلوچستان کا ہر انچ آزاد کرائے گی، تاہم مسلح حملوں میں تیزی اور آزادی پسندوں کی ناکہ بندیوں کی پھیلاؤ ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
سیاسی رہنما، قانونی ماہرین اور حتیٰ کہ حکومتی اتحاد کے کچھ اراکین بھی کہتے ہیں کہ بگٹی صاحب کا کنٹرول کا دعویٰ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ بلوچستان کے کئی علاقے اب بھی ریاستی کنٹرول سے باہر ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل ایڈووکیٹ ساجد ترین نے وزیرِ اعلیٰ کے بیان کو حقائق سے نفی قرار دیتے ہوئے کہا ہے وزیرِ اعلیٰ خود مستونگ سے خضدار تک سڑک کے ذریعے سفر نہیں کر سکتے اور انکے صوبائی وزراء سیکیورٹی خدشات کے باعث اضلاع کے درمیان زمینی سفر سے گریز کرتے ہیں۔
اسی سال کے آغاز میں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایم پی اے ظفراللہ زہری نے بھی خبردار کیا تھا کہ بلوچستان کی شاہراہیں اب عملاً مسلح گروہوں کے کنٹرول میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی رِٹ اپنے دفاتر سے باہر نہیں جاتی اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سیکیورٹی بحران کی سنگینی کو تسلیم کرے۔
اکتوبر میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ایوان میں کہا کہ حکومت کی رِٹ صرف پانچ کلومیٹر تک محدود ہو گئی ہے وہ بھی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں، انہوں نے خبردار کیا کہ مسلح گروہ شہر کے باہر چیک پوسٹیں قائم کر رہے ہیں وہ جب چاہیں گاڑیاں روک کر تلاشی لے سکتے ہیں۔
اسی طرح سابق وزیرِ اعلیٰ جان محمد جمالی نے ستمبر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی انتخابات کے دوران اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں خوف کے باعث بولان کے راستے سفر نہیں کر سکتا حتیٰ کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی نوشکی سے نہیں گزر سکتے۔
بلوچ مسلح تنظیم کے مسلسل حملوں کے باعث بلوچستان کا ضلع قلات اور دیگر علاقوں کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی بارہا بلوچ مسلح گروہوں کی طاقت کو کم تر ظاہر کیا ہے، گزشتہ سال بی ایل اے کی “آپریشن ہیروف” کے بعد بلوچستان کے دورے پر آئے وفاقی وزیر نے میڈیا کو گفتگو میں بتایا کہ بلوچ جنگجو “ایک ایس ایچ او کی مار ہیں اور انکے لئے مقامی پولیس کافی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان جسے اعتماد کا مظاہرہ سمجھا گیا بعد میں نقادوں کے لیے طنز کا نشانہ بن گیا، میڈیا سمیت مختلف وزراء اور بلوچستان کے سیاسی حلقوں نے وزیر داخلہ کے بیان کو حقیقت سے رد گرانی قرار دیا۔
حالیہ دنوں منتخب ہونے والے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی نے بھی میڈیا گفتگو کے دوران وزیر داخلہ نقوی کے اس بیان پر طنز کرتے ہوئے کہا اگر بلوچستان واقعی ایک ایس ایچ او کے مار ہے تو پھر وہاں بلٹ پروف گاڑیاں بھیجنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟
انہوں نے کہا وزیر داخلہ یا تو اُس وقت مبالغہ کر رہے تھے یا اب سچ تسلیم کررہے ہیں۔
آفریدی کے اس تبصرے نے پاکستانی سیاسی حلقوں میں بڑھتے ہوئے اس احساس کی عکاسی کی کہ امن کی بحالی کے سرکاری دعوے حقیقت کو چھپا نہیں سکتے، بلوچستان کا تنازع اب بھی ریاست کی گرفت سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔
پھیلتا ہوا تنازع
حالیہ حملوں میں اضافے نے اس تصاعد کو جاری رکھا ہے جو بلوچ لبریشن آرمی نے اگست 2024 میں آپریشن “ہیروف” کے آغاز کے ساتھ شروع کیا تھا ایک ایسی مہم جسے تجزیہ کار بلوچ مزاحمت کی تاریخ میں ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس نے گوریلا کارروائیوں سے نکل کر منظم اور مربوط جنگ کا رخ اختیار کیا۔
بی ایل اے نے “ہیروف” (جس کا مطلب بلوچ اور براہوئی زبانوں میں “کالی آندھی” ہے) کو ایک کثیر مرحلہ مہم کا پہلا مرحلہ قرار دیا، جس کا مقصد بلوچستان پر دوبارہ بلوچ کنٹرول کی بحالی تھا۔
بیشتر مبصرین کے مطابق بلوچ تحریک کی تاریخ کی سب سے بڑی اور منظم کارروائی تھی جو مکران کے ساحل سے لے کر کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے تک پھیلی ہوئی تھی، اس آپریشن کے دوران تنظیم نے چودہ اضلاع میں درجنوں حملوں کا اعلان کیا جن میں فوجی قافلوں پر حملے، اہم شاہراہوں پر 48 گھنٹے تک قبضہ اور لسبیلہ میں فرنٹیئر کور کے ایک بڑے فوجی کیمپ پر حملہ اور دو روزہ قبضہ شامل تھا۔
آپریشن ہیروف کے بعد بی ایل اے نے متعدد بڑے اور مہلک نوعیت کے حملے کیے ہیں، جنہیں تنظیم نے فوجی مشقیں قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا مقصد کمانڈ ڈھانچے، ہم آہنگی اور میدانِ جنگ میں برداشت کو آزمانا تھا تاکہ اگلے مرحلے کی تیاری کی جاسکے۔
رواں سال کے آغاز سے ہی جنوری 2025 میں بی ایل اے نے خضدار کے علاقے زہری پر کئی گھنٹوں کے لیے قبضہ کرکے وہاں موجود سرکاری دفاتر اور لیویز تھانے کو قبضے میں لیکر کئی گھنٹوں تک علاقے پر اپنا کنٹرول بر قرار رکھا۔
مئی میں تنظیم نے کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے قلات کے منگچر پر قبضہ کر کے سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی اور اہم شاہراہ بند کردی 9 اور 10 مئی کو، بی ایل اے نے 51 مقامات پر 70 سے زیادہ حملے کیے، جن کے ہدف فوجی قافلے، چیک پوسٹس اور مواصلاتی ڈھانچے تھے۔
تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے ان حملوں کے حوالے میڈیا کو فراہم کردہ اپنے بیان میں کہا کہ انکے یے حملے زمینی کنٹرول اور دفاعی پوزیشنوں کی آزمائش کے لیے تھا اور یہ سب منظم فوجی مشقوں کا حصہ تھا جو ہیروف کے اگلے مرحلے کی تیاری کا حصہ ہیں۔
اگست 2025 میں اس مہم کی پہلی سالگرہ کے موقع پر بی ایل اے نے ایک دستاویزی ویڈیو جاری کی جس میں تنظیم کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے اعلان کیا کہ آپریشن ہیروف کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے جو دشمن کے زوال اور بلوچ خودمختاری کے آغاز کا مرحلہ ہوگا۔
بشیر زیب بلوچ نے ویڈیو میں کہا آپریشن ہیروف کا دوسرا مرحلہ ہماری تاریخ کا وہ باب ہو گا جو دشمن کے زوال اور ہماری خودمختاری کے آغاز کو رقم کرے گا، ہم پہلے سے زیادہ منظم، تیار، اور پُرعزم ہیں یہ جنگ صرف بارود اور گولیوں کی نہیں، بلکہ حوصلے، نظم و ضبط اور قربانی کی جنگ ہے۔
اسی دوران بلوچستان لبریشن فرنٹ کی بلوچستان بھر میں آپریشن بام کا آغاز 9 جولائی 2025 کو ہوا، تنظیم کے مطابق اس کے سرمچاروں نے اس آپریشن کے دوران متعدد اضلاع میں 80 سے زیادہ مربوط حملے کیے جن میں فوجی ٹھکانوں پر حملے، اسلحے کی ضبطی، مواصلاتی ٹاوروں کی تباہی اور اہم شاہراہوں کی بندش شامل تھی۔
بی ایل ایف نے “بام” کو بلوچستان بھر میں پہلا بیک وقت حملہ قرار دیا جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ تنظیم پورے بلوچستان میں بیک وقت کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگست 2025 میں دونوں تنظیموں نے جو بلوچ راجی آجوئی سنگر کے اتحاد کے تحت کام کرتی ہیں بلوچ تحریک کی تاریخ کی سب سے طویل مسلح قبضے کی کارروائی انجام دی جنگجوؤں نے خضدار کے علاقے زہری پر تقریباً دو ماہ تک قبضہ برقرار رکھا جس دوران انہوں نے چیک پوائنٹس قائم کیے، فوجی قافلوں پر حملے کیے اور علاقے کے کچھ حصوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا جب تک کہ پاکستانی فورسز نے فضائی اور زمینی کارروائی کے ذریعے دوبارہ قبضہ نہ کرلیا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے بی ایل اے کی آپریشن ہیروف اور بی ایل ایف کی آپریشن بام جیسے کاروائیاں اور انکے براس کے تحت اتحاد ہم آہنگی بلوچ مسلح تحریک میں بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں اب جنگجوؤں کے پاس نہ صرف بلوچستان بھر میں حملے کرنے کی صلاحیت ہے بلکہ ان کی تنظیمی ہم آہنگی، مواصلات اور عسکری مہارت بھی نمایاں طور پر بڑھ چکی ہے۔
زیادہ منظم مزاحمت
بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے تازہ مرحلے کو شروع ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں اور اب یہ تنازع ایک زیادہ منظم اور طویل المدتی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
اس مرحلے کی خصوصیات میں بہتر تنظیم، متعدد اضلاع میں بیک وقت حملے کرنے کی صلاحیت، ریاستی کنٹرول میں رکاوٹ اور طویل عرصے تک آپریشنز جاری رکھنے کی قوت شامل ہیں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارے جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی جو موجودہ مزاحمت کی قیادت کررہی ہے اب جنوبی ایشیا کی سب سے منظم اور مؤثر فعال مسلح تنظیم بن چکی ہے تنظیم کی طاقت میں اضافہ بڑھتی ہوئی افرادی قوت، بہتر ہم آہنگی اور نئی بلوچ نسل میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کی بدولت ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایک نئی، تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی قیادت ہے جنہوں نے روایتی قبائلی سرداروں کی جگہ لی ہے کمانڈ کو مرکزی سے غیرمرکزی کیا ہے اور بھرتی کو قبائلی حدود سے آگے پھیلا دیا ہے۔
یہ قیادت اب تحریک کو نظریاتی، سماجی طور پر مربوط اور علاقائی حدوں سے ماورا بنا چکی ہے تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تنظیم کی حکمتِ عملی تیزی سے جدید ہوتی جارہی ہے جس میں اپنے بیانیہ کو پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال، تنظیم میں خواتین کی شمولیت اور چینی پروجیکٹس پر حملے شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بی ایل اے کی جانب سے ان ہتھکنڈوں کو اپنانے نے ایک مقامی بغاوت کو علاقائی و بین الاقوامی تنازع میں بدل دیا ہے جس میں اب پاکستان، چین، اور بڑھتی ہوئی حد تک مغربی پالیسی ساز بھی شامل ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک کے مطابق اسلام آباد کی فوج پر مبنی حکمتِ عملی نے بلوچ عوام میں اجنبیت اور مایوسی کو مزید بڑھایا ہے جس سے مسلح بیانیے کو مزید تقویت ملی ہے پاکستانی ریاست اب بھی بلوچ بحران کو محض سیکیورٹی مسئلہ سمجھتی ہے اور سیاسی مکالمے سے گریز کرتی ہے۔
اسی طرح دھاندلی سے ہونے والے انتخابات، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کی سنسرشپ اور سول تحریکوں کو غیرملکی ایجنڈا قرار دینا ریاست کے ان محرکات نے مل کر بلوچ نوجوانوں کو مزاحمتی تحریک کی طرف دھکیل دیا ہے۔
بار بار کیے جانے والے ریاستی اختیار کی بحالی کے دعووں کے باوجود حکومت کا کنٹرول اب بھی کمزور اور غیرمستحکم ہے جو اختیار پہلے صرف شہری مراکز تک محدود تھا اب وہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
بلوچ مسلح تنظیموں کی مربوط حملوں میں اضافہ، شہروں اور قصبوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت اور سرکاری بیانیے اور زمینی حقیقت کے درمیان بڑھتا ہوا فرق یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچستان میں طاقت کا توازن آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر ریاست سے دور جا رہا ہے۔












































