درد کی صدائیں
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
جب بھی بلوچستان کا ذکر کیا جاتا ہے تو دل میں کسی خوبصورت منظر کا تصور نہیں اُبھرتا اور نہ کسی جھیل کی نیلاہٹ ذہن کے پردوں پر اترتا ہے، نہ ہی اس ذکر سے پہاڑ کی چوٹی سے اترتی دھوپ کی کرن دل کو چھوتی ہے بلکہ دل کے کسی خاموش گوشے میں ایک کسک، ایک سسکی، ایک لرزتا ہوا دکھ جاگ اٹھتا ہے۔
وہ دکھ جو مہرگڑھ کی سرزمین سے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ مٹی جس نے وفا، غیرت اور صبر کی داستانیں جنم دی ہیں، اب اس سینے میں آہ و بکا نے جگہ کر لی ہے، نیم بیوہ عورتوں کے آنسو اور انتظار میں جیتے چہروں کے زخم سنبھالے بیٹھی ہے۔
بلوچستان کی فضا میں ایک بھاری خاموشی گھلی ہوئی ہے، جیسے ہوا کا ہر جھونکا کسی گمشدہ آواز کو ڈھونڈ رہا ہو۔ یہ سرزمین جو کبھی موسیقی، مہمان نوازی اور شجاعت کی پہچان تھی، اب ہر گلی، ہر در و دیوار سے سوال کرتی ہے۔ ماں کے سینے میں اب بھی وہ سسکی زندہ ہے کہ جب کوئی نام پکارا جائے تو درد بن کر فضا میں بکھر جاتی ہے۔ یہ مٹی اب محض پہاڑوں اور وادیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ اب یادوں، سوالوں اور خاموش چیخوں کی لغت بن چکی ہے۔
بلوچ سرزمین کے ہر کوچے میں ایک نام گونجتا ہے جو اب صرف تصویر کی صورت زندہ ہے۔ بلوچستان کی ماؤں کی آنکھیں اب جھیل نہیں رہیں، وہ آنسوؤں کے سمندر ہیں۔ وہ بیٹے کی تصویر کو روز صاف کرتی ہیں، جیسے اُس کی سانسوں کو جھاڑ رہی ہوں۔ جب رات کا اندھیرا گہرا ہوتا ہے، وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ کر آسمان کو دیکھتی ہیں کہ شاید کسی ستارے میں اپنے گمشدہ بچے کا عکس نظر آ جائے۔
یہ مائیں وقت کی دیوار پر کیل بن کر ٹنگی رہ گئی ہیں۔ نہ وہ تھکتی ہیں، نہ ہارتی ہیں اور نہ ہی درد کے جھنجھوڑنے والی یادوں کو بھولتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تسبیح نہیں بلکہ اپنے بیٹوں کی تصویریں ہیں، جنہیں وہ روز دھوپ میں رکھتی ہے تاکہ اُس کی خوشبو باقی رہے۔
بہن کے لیے بھائی صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ ایک سایہ ہے اور بلوچستان کے گمشدہ بھائیوں کی بہنیں اب اپنے کمروں میں خاموشی کے ساتھ جیتی ہیں۔ وہ بھائی کی پرانی کتابیں الماری سے نہیں نکالتیں کیونکہ ان کتابوں کے صفحات میں اُس کی ہنسی گوندھی ہے۔
بیوگی سے زیادہ وحشت کی کیفیت ہے نیم بیوگی ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے شوہر حیات ہیں یا نہیں، اس کا انہیں علم نہیں ہے۔ وہ اپنے دوپٹے میں صرف دعائیں باندھے رہتی ہیں، مگر جواب میں انہیں صرف خاموشی کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے گھروں کے دروازے اب شادیانے نہیں، سناٹے دیکھتے ہیں۔ ہر عید ان کے لیے خوشی کے بجائے انتظار کا دن ہوتا ہے۔ دروازوں پر آس لگائے انتظار میں برسوں بیت جاتے ہیں مگر وہ دروازہ صرف ہواؤں کے سلام کو ہی سنتے ہیں۔
وہ منگیتر جو شادی کے خواب لیے گھر بیٹھی ہیں، اب وہ لڑکیاں روز آئینے میں اپنے سپنوں کو دیکھتی ہیں جو ادھورا رہ گئے ہیں۔ ان کے زیورات بند صندوق میں پڑے ہیں مگر اس کی نظریں اب بھی دروازے پر ٹکھی ہیں۔ کبھی کبھی وہ خود کلامی میں کہتی ہے کہ “کیا وہ مجھے یاد کرتا ہوگا؟ کیا اُسے معلوم ہے کہ اب بھی میں اس کے لئے انتظار کر رہی ہوں؟”
ان کے دل کی زمین پر وقت کی دھوپ اتنی تیز پڑ چکی ہے کہ اب وہاں صرف یادوں کا سایہ ہی باقی ہے۔ کبھی یہ نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ چائے خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ ہنسی، مذاق، قہقہوں کی گونج سے فضا بھر جاتی تھی۔ اب بھی چائے خانہ ویسے ہی چل رہا مگر ایک نشست خالی ہیں۔ دوست جب وہاں مجمع لگاتے ہیں لیکن ہنسی کی جگہ خاموشی نے لے لی ہے۔ اس کے انتظار میں چائے کا کپ ٹھنڈا ہوچکا ہے۔
وہ مقامات جہاں اس کے قدموں کے نشانات ہیں جہاں کبھی وہ پہاڑوں کے دامن میں بیٹھا گھنٹوں سوچتا تھا۔ کبھی ساحل پر جا کر ریت پر اپنا نام لکھ کر لہروں کے سپرد کر دیتا ہے ۔ اب ان جگہوں پر خاموشی کا راج ہے ۔ پہاڑوں کے بے نام راستوں پر اس کے قدموں کے نشان اب بھی باقی ہیں لیکن راستوں کا وہ مسافر اب نہیں رہا۔ ساحل پر لہریں اب بھی آتی ہیں، مگر سپرد نام کوئی نہیں کرتا۔
والد کی خاموشی سب سے زیادہ بوجھل ہے۔ وہ نہ روتے ہیں اور نہ ہی درد کا اظہار کرتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ چکے ہیں۔ رات کو وہ اپنے بیٹے کا کمبل اوڑھ کر بیٹھتے ہیں کہ شاید اس کی خوشبو سانس میں باقی رہے۔ ان کے کندھے بوڑھے نہیں، مگر تھک گئے ہیں۔ ان کے چہرے پر سکون نہیں، سوال لکھے ہیں اور پھر وہ بچے جو اپنے والد کے انتظار میں جوان ہو رہے ہیں۔ جن کے نصاب میں لفظ “بابا” لکھا تو ہے، مگر معنی غائب ہیں۔ ان کے خواب ادھورے ہیں، ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔
بلوچستان کے گاؤں اداسی کی لپیٹ میں ہیں۔ جن راستوں پر کبھی قہقے گونجتے تھے، اب سنسان ہیں۔ وہ مکان جس کے سامنے شام کو چراغ جلتا تھا، اب اندھیرا میں ڈوبا ہوا ہے۔ دیواروں پر لگی تصویریں گرد میں ڈھک گئیں ہیں مگر ان تصویروں میں آنکھیں اب بھی سوال کرتی ہیں اور ہوا میں درد بستا ہے جو ساتھ دردناک چیخیں لاتی ہے۔
بلوچستان ایک انتظار کی داستان بن چکا ہے۔ ایک صبر کا امتحان، ایک چیخ جو لفظ نہیں بن پاتی۔ یہاں کی مائیں وقت سے لڑ رہی ہیں، یہاں کے بہادر والد گمنام سوالوں کے متلاشی پیں۔ یہاں کی بہنیں خاموشی کا چادر اوڑھنے سے انکاری ہیں اور یہاں کے بچوں کے خواب چھین چکے ہیں۔
بلوچستان کے بلند پہاڑ اب بھی کھڑے ہیں، مگر ان کے سائے میں اداسی بسی ہے۔ دریا اب بھی بہتے ہیں، مگر ان کے پانیوں میں آنسو گھلے ہیں۔ چراغ اب بھی جلتے ہیں، مگر ان کی لو میں امید نہیں، یادوں کا دھواں ہے اور گہری رات میں تو بلوچستان کی فضا میں ایک مدھم صدا گونجتی ہے۔ وہی صدا جو ہر ماں کے دل سے نکلتی ہے۔ یہ صدا نہ وقت سنتا ہے، نہ موسم، نہ فاصلہ۔ یہ صدا بس بلوچستان کے آسمان پر لکھی ہوئی دعا بن چکی ہے۔ ایک ایسی دعا جو آج بھی ہر صبح، شام، اسی امید کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ “ شاید آج وہ لوٹ آئے۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔











































