امریکہ نے روس پر نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے روس کی دو بڑی آئل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان امریکی پابندیوں کا مقصد یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کرنے کے لیے روس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ان پابندیوں کا اعلان ایسے وقت پر ہوا ہے جب گذشتہ روز امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ روس کے صدر پوتن سے ہونے والی ملاقات ملتوی ہو سکتی ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’ہر بار میری ولادمیر (پوتن) سے بات چیت بہت اچھی ہوتی ہے اور پھر کچھ ہوتا نہیں ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک ریٹو سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں امن مذاکرات کے بارے میں غور کیا گیا۔
اوول آفس میں بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پوتن پر تنقید کی کہ وہ امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں اور انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان پابندیوں سے انھیں امن کے مجبور کیا جا سکے گا۔
صدر ٹرمپ نے پابندیوں کو ’زبردست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اُمید ہے کہ اگر روس جنگ ختم کرنے پر تیار ہو گیا تو انھیں فوری ختم کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب بدھ کو روس نے یوکرین کے کئی علاقوں میں شدید بمباری کی جس میں بچوں سمیت کم سے کم سات افراد ہلاک ہوئے۔
امریکہ کے سیکریٹری خزانہ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن کی جانب سے جنگ ختم نہ کرنے کے سبب نئی پابندیاں عائد کرنا ضروری تھیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ آئل کمپنیاں کریملن کی ’جنگی مشینوں‘ کی فنڈنگ کرتی ہیں۔
سیکریٹری خزانہ سکوٹ بیسنٹ نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہلاکتوں کو روکا جائے اور فوری جنگ بندی کی جائے۔‘
امریکہ کی جانب سے یہ اقدام ایسے موقع پر اُٹھایا گیا ہے جب یوکرین میں امن کے لیے روس اور امریکہ کی تجاویز میں فرق کافی واضح ہو گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ ماسکو نے لڑائی بند کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
روس کی سب سے زیادہ تیل و گیس کی مصنوعات برآمد کرتا ہے اور چین، انڈیا اور ترکی اُس کے بڑے خریدار ہیں۔صدر ٹرمپ نے ان ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری بند کریں تاکہ کریملن معاشی دباؤ بڑھایا جائِے۔