بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے فورتھ شیڈول میں متعدد بلوچ کارکنوں اور انسانی حقوق کے دفاع کرنے والوں کی من مانے اور غیرقانونی طور پر شمولیت ایک خطرناک اور تشویشناک عمل ہے، جس کا مقصد پُرامن سیاسی و انسانی حقوق کی جدوجہد کو دبانا، جائز اختلاف رائے کو خاموش کرنا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو مجرم قرار دینا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ تنظیم کے کئی مرکزی و ضلعی رہنماؤں اور وابستہ کارکنوں کے نام بغیر کسی شفاف قانونی عمل، ثبوت یا جواز کے فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں شامل افراد درج ذیل ہیں۔
ضلع خضدار: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ (مرکزی رہنما، سمی دین اور مقامی باشندے شکیل احمد، عبدالغنی، حبیب اللہ، محمد طارق، اور شفیق الرحمن ساسولی جبکہ
ضلع کیچ سے نازگل اور سید بی بی (دونوں تنظیم کے کارکن)، اور ڈاکٹر شلی، جو بلوچ ویمن فورم کی آرگنائزر لسٹ میں شامل ہیں ۔
ضلع چاغی سے کل 26 افراد جن میں تحصیل دالبندین سے 12، تحصیل نوکنڈی سے 11، اور تحصیل تفتان سے 3 افراد شامل ہیں۔ یہ تمام افراد پُرامن انسانی حقوق کے محافظ، طلباء، اور کمیونٹی آرگنائزر ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ ان افراد کی فورتھ شیڈول میں شمولیت آئینِ پاکستان کی بنیادی ضمانتوں جیسے کہ منصفانہ سماعت، تنظیم سازی کی آزادی، اور اظہارِ رائے کی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ عمل نہ صرف آئین بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی توہین ہے۔
مرکزی بیان میں کہا گیا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا غلط استعمال ریاست اور بلوچستان کے عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزور کر رہا ہے اور قانون کی حکمرانی کو مجروح کر رہا ہے۔
بیان کے مطابق، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ فورتھ شیڈول میں شامل تمام بےگناہ افراد کے نام فوری طور پر خارج کیے جائیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے قومی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی، اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس غیرانسانی اقدام کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ان تمام بلوچ کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں جن کا واحد “جرم” اپنے عوام کے حقوق اور وقار کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔