کوئٹہ: علی اصغر کی جبری گمشدگی کو 24 سال مکمل، اہلخانہ کا پریس کانفرنس میں بازیابی کا مطالبہ

26

بلوچ سیاسی کارکن علی اصغر کی جبری گمشدگی کو 24 سال مکمل ہونے پر ان کے بیٹے غلام فاروق نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے والد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے مستقل خاتمے کا مطالبہ کیا۔

غلام فاروق نے کہا کہ ان کے والد علی اصغر کو پہلی بار جون 2000 میں شاہوانی روڈ کوئٹہ سے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے جبری لاپتہ کیا، جنہیں 14 دن بعد رہا کردیا گیا۔ تاہم دوسری بار 18 اکتوبر 2001 کو انہیں دوبارہ محمد اقبال نامی شخص کے ہمراہ ڈگری کالج کوئٹہ کے سامنے سے اٹھایا گیا، محمد اقبال کو 24 دن بعد رہا کردیا گیا، مگر علی اصغر تاحال ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ 24 سالوں سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے عدالتوں، کمیشنوں اور حکومتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں، مگر ہمیں انصاف نہیں ملا۔ اس عمل نے نہ صرف ہمارے اعتماد کو مجروح کیا بلکہ ہماری زندگیوں کو بھی مفلوج کردیا ہے۔

غلام فاروق نے بتایا کہ طویل انتظار اور انصاف نہ ملنے کے باعث ان کا خاندان شدید ذہنی و مالی دباؤ میں ہے، ان کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور وہ نفسیاتی مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں ملکی و بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہیں۔ ہر دورِ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے وعدے کیے، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث بلوچستان میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست اگر خود کو جمہوری کہلاتی ہے تو اسے انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا۔ جبری گمشدگیاں صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت، انصاف کے نظام اور ریاستی اداروں کے وقار کا امتحان ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان، عدلیہ اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جائے، جبری گمشدگیوں کے خلاف جامع قانون سازی کی جائے، اور اگر علی اصغر زندہ ہیں تو ان کی رہائی، بصورتِ دیگر ان کے بارے میں واضح اطلاع فراہم کی جائے تاکہ خاندان کو تذبذب سے نجات مل سکے۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر غلام فاروق نے کہا کہ خاموشی مظلوم کے ساتھ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔