بلوچ مزاحمتی تاریخ اور شناخت کی جدوجہد – سفرخان بلوچ (آسگال)

369

بلوچ مزاحمتی تاریخ اور شناخت کی جدوجہد

تحریر: سفرخان بلوچ ( آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

ہر ریاست اپنی تشکیل کے ساتھ طاقت کا ایک بیانیہ تخلیق کرتی ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جو اس کے وجود کو اخلاقی، قانونی اور قومی جواز فراہم کرے۔ ہیگل کے مطابق ریاست “اخلاقی روح کا مظہر” ہے۔ تاہم، جب ریاست اپنی طاقت کو عوامی رضامندی سے جدا کر دیتی ہے، تو وہ اپنی اخلاقی حیثیت کھو بیٹھتی ہے۔ یہی نکتہ فرانز فینن کے نزدیک نوآبادیاتی مزاحمت کا آغاز بنتا ہے۔ جب کوئی محکوم قوم یہ ادراک کر لیتی ہے کہ ریاستی جواز دراصل غلبے کا آلہ بن چکا ہے، تو وہ ردِعمل میں اپنی آزادی کی تعریف خود تخلیق کرنے لگتی ہے۔

ریاست ہمیشہ اپنے مخالف کو “ غیر فطری “انتہا پسند” یا “دہشت گرد” کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ اقتدار کے تسلسل کو بیانیاتی جواز حاصل رہے۔

انٹینیو گرامشی کے الفاظ میں، ریاست کی اصل طاقت صرف اس کے عسکری وسائل میں نہیں بلکہ بیانیاتی بالادستی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔

کسی قوم کی مزاحمتی تحریک جب طویل عرصے تک زندہ رہے، عوامی شعور میں سرایت کر جائے اور طاقت کے مراکز کے متوازی ایک اخلاقی جواز پیدا کرلینے میں کامیاب ہو تو یہ دراصل گرامشی کے معنوں میں “جوابی بالادستی” کی تشکیل ہوتی ہے۔

بلوچستان کی موجودہ مزاحمتی تحریک محض سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ قوم کی خودآگاہی کی علامت ہے۔ وہی شعور جسے ایرک ہابسبام نے “تاریخی خودی کی یادداشت” کہتا ہے۔

بلوچ قوم کی تاریخی، لسانی اور ثقافتی تشکیل جدید قومی ریاستوں کے ماڈل سے پہلے موجود تھی۔ اس کا خمیر ان قبائلی و ثقافتی رشتوں سے اٹھا ہے، جو ہزاروں سال سے اس خطے کی شناخت کا حصہ رہے ہیں۔ ارنسٹ گلنر (Ernest Gellner) کے نظریے کے مطابق قومیت وہاں جنم لیتی ہے، جہاں ثقافت اور طاقت کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جائے۔

بلوچستان میں یہ فاصلہ نوآبادیاتی دور میں بڑھا، جب برطانوی حکمرانوں نے سرداری نظام کو برقرار رکھا، مگر اسے بالواسطہ طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا۔ یہی وہ دور تھا جس میں بلوچ سیاسی شعور کی ابتدائی بنیاد رکھی گئی۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب عالمی طاقتوں نے نوآبادیاتی ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دیا، تو جنوبی ایشیا میں گریٹ گیم کی نئی شکل سامنے وجود میں آئی۔ خطے کے بدلتے حالات میں بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے سبب صرف ایک علاقہ نہیں رہا بلکہ ایک اسٹریٹجک زون بن چکا تھا۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی بلوچستان کا قبضہ دراصل اسی نوآبادیاتی تسلسل کا تسلسل تھا، جسے مذہب اور سلامتی کے بیانیے میں لپیٹ کر پیش کیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب، فینن کے الفاظ میں، “قوم کی روح اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا دی گئی”۔

آغا عبدالکریم خان کی انیس سو اٹھتالیس کی قومی مزاحمت محض ایک مسلح کوشش نہیں تھی بلکہ “خود آگاہی کی پہلی اجتماعی صدا” تھی۔ اس کے بعد کے ادوار میں 1958، 60، 1962، 63، 1973، 77 میں قومی مزاحمت مختلف شکل میں بار بار ابھرتی رہی۔ یہ تسلسل ثابت کرتا ہے کہ یہ تحریک کسی بیرونی سازش یا وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ تاریخی عدم برابری، معاشی استحصال، اور سیاسی بے اعتباری کے خلاف اجتماعی شعور کا قومی اظہار ہے۔  بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) نے فکری و نظریاتی بنیاد فراہم کی، جو بینیڈکٹ اینڈرسن کے تصورِ “Imagined Community” کے عین مطابق ہے۔ یعنی قوم ایک اجتماعی تصور ہے جو اپنے بیانیے سے وجود پاتی ہے۔

سنہ 2000 کے بعد بلوچ مزاحمت نے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بیانیہ اور عسکری مزاحمت دونوں نے جدید خطوط پر خود کو منظم کر لیا تھا ۔  بلوچ مسلح تنظیمیں اس جوابی بیانیے کی عسکری شکل بنیں، جو ریاست کے “قانون و نظم” کے تصور کو چیلنج کرتی ہیں۔ ریاست نے ہمیشہ اس مزاحمت کو “را کی سازش” یا “غیر ملکی ایجنڈا” قرار دیا مگر یہ وہی بیانیاتی ہتھیار ہے، جس کا تجزیہ میشل فوکو نے “Discursive Power” کے طور پر کیا تھا، طاقت صرف ہتھیار سے نہیں بلکہ زبان، تعریف اور تعبیر سے بھی چلتی ہے۔

بلوچ مزاحمتی قوتیں اس تعبیر کو پلٹنے کی کوششیں سوشل میڈیا، عالمی فورمز، انسانی حقوق کی پامالیوں کے ڈوکومنٹس کرنے اور ڈائسپورا کی سیاست کے ذریعے کر رہا ہے۔ یوں یہ جدوجہد اب صرف زمین کی آزادی نہیں بلکہ بیانیے کی آزادی بن چکی ہے۔
ریاست اگر اسے محض فوجی مسئلہ سمجھتی ہے، تو وہ اصل خطرہ یعنی “فکری مزاحمت” کو نظرانداز کر رہی ہے۔

بلوچ تحریک کا تسلسل ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قومیں صرف جغرافیہ سے نہیں بلکہ یادداشت، شناخت اور جدوجہد سے بنتی ہیں۔ یہ وہی اصول ہے جو ہیگل کے نزدیک “روح کی تاریخ” ہے، یعنی قوم اپنی سچائی اس وقت حاصل کرتی ہے جب وہ غلبے کے خلاف اپنی آزادی کو شعور میں بدل دے۔

ریاستی طاقت اپنی بقا کے لیے اگر بیانیہ تخلیق کرتی ہے، تو محکوم قومیں اس بیانیے کو چیلنج کر کے اپنی اخلاقی و تاریخی خودی کو ازسرِنو رقم کرتی ہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ محض ماضی کا بیان نہیں رہتی بلکہ شعورِ مزاحمت میں ڈھل جاتی ہے۔

ہیگل کے معنوں میں، یہ وہ مرحلہ ہے جب “روح اپنی آزادی کو پہچان لیتی ہے” اور فینن کے نزدیک، “ جب محکوم قوم یہ ادراک حاصل کر لے کہ اس کی آزادی کسی عطیے کی محتاج نہیں بلکہ اس کے اپنے شعور کا فطری تقاضا ہے “۔ بلوچ مزاحمت اسی شعور کی علامت ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جو زمین سے زیادہ وقار، تعریف اور بیانیے کی بازیافت کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ صرف سیاسی یا عسکری نہیں، بلکہ اخلاقی، فکری اور تہذیبی بازیافت کا مسئلہ ہے۔ وہ لمحہ جب قوم اپنی تاریخ کو دوبارہ اپنی زبان میں بیان کرتی ہے اور شاید یہی وہ مقام ہے جہاں قومیں، ہیگل کے الفاظ میں، “روح کی تاریخ” میں اپنی جگہ خود تحریر کرتی ہیں۔  جہاں غلبہ مٹ جاتا ہے، اور شعور، آزادی میں ڈھل جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔