بلوچستان: جنگ یا قومی مزاحمت؟ – ٹی بی پی اداریہ

84

بلوچستان: جنگ یا قومی مزاحمت؟

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان کے متنازع وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں 17ویں نیشنل ورکشاپ کے دوران بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد کو بھارتی ایجنسی ’را‘ کی سازش قرار دیتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کو دہشتگردی سے منسوب کیا اور کہا کہ یہ جنگ صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے۔ یہ مؤقف بلوچستان کی زمینی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ کوئی بھی مزاحمتی تحریک عوامی حمایت کے بغیر دو دہائیوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔

بلوچستان میں پاکستان فوج کی کارروائیوں کو ’قومی جنگ‘ قرار دینا ایک غیر حقیقی بیانیہ ہے۔ عوامی سطح پر اس جنگ کے خلاف مسلسل ردِعمل موجود ہے، اور مزاحمتی گروہ مختلف ادوار میں دوبارہ منظم ہو کر سامنے آتے رہے ہیں۔ طاقت کے استعمال سے ان تحریکوں کو دبانے کی کوششیں وقتی طور پر ممکن ضرور ہیں مگر دیرپا حل فراہم نہیں کرتیں۔

گزشتہ برسوں میں بلوچستان میں مزاحمتی کارروائیوں کی شدت بڑھی ہے۔ شاہراہیں اور حکومتی تنصیبات غیر محفوظ ہو چکی ہیں، بین الاقوامی منصوبے اور فوجی اہداف بارہا نشانہ بنے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادی کی مسلح جدوجہد اپنی عملی صلاحیت بڑھا چکی ہے۔

اگر آزادی کی جنگ واقعی محض پروپیگنڈا ہوتی تو فوج کو مختلف علاقوں میں بڑے آپریشن کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام آبادی براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستانی مقتدر قوتوں کا زمینی حقائق سے انکار بلوچستان کی جنگ زدہ صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ وقتی طور پر دنیا سے حالات چھپائے جا سکتے ہیں مگر طویل عرصے تک نہیں۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال صاف ظاہر کرتی ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد اپنی قوت کے ساتھ عالمی سطح پر کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کی جائے گی۔