بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی تازہ سماعت انسدادِ دہشت گردی عدالت کے بجائے کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں منعقد کی گئی۔ یہ بات اتوار کو سامنے آئی، جب اس پیش رفت کو مذکورہ تنظیم نے “اداراتی جبر کی تشویشناک مثال” قرار دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر جاری بیان میں بتایا کہ نظر بند رہنماؤں کے عدالتی ریمانڈ میں مزید دس دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنما صبغت اللہ بلوچ، بیبو بلوچ، بیبرگ بلوچ اور گل زادی بلوچ کو مارچ میں پبلک آرڈر آرڈیننس (MPO) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اور وہ اس وقت سے زیرِ حراست ہیں، جن کے ریمانڈ میں متعدد بار توسیع کی جا چکی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے وکیل اسرار بلوچ نے ہفتے کے روز ہونے والی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نمبر 1 کے جج محمد علی مبین نے سنا۔
ان کے مطابق بی وائی سی رہنماؤں کو ATC-1 میں پیش کرنے کے بجائے بی وائی سی کی قانونی ٹیم کو کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل بلایا گیا، جہاں مقدمات کی سماعت کی گئی۔
اسرار بلوچ نے مزید بتایا، “سماعت کے دوران پراسیکیوٹر چالان جمع کرانے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے نہ تو الزامات عائد کیے جا سکے اور نہ ہی باقاعدہ ٹرائل شروع ہو سکا۔
سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی ہے، اور جج مبین نے استغاثہ کو اس تاریخ تک چالان جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اس سے قبل بی وائی سی نے اپنے ایکس (X) بیان میں کہا کہ “جیل میں سماعتوں کا انعقاد شفافیت کو دبانے، عوامی نگرانی کو ختم کرنے اور بلوچستان میں پُرامن سیاسی اختلاف کو مجرمانہ رنگ دینے کی ایک سنگین اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جانے والی کارروائی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا، “کارروائیوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے منتقل کر کے ریاست دراصل متاثرہ خاندانوں، صحافیوں اور غیر جانب دار مبصرین کو اس عمل کا مشاہدہ کرنے سے روک رہی ہے ، جو کہ پاکستان کے اپنے آئین اور بین الاقوامی منصفانہ ٹرائل اور قانونی طریقہ کار کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔