بلوچستان کی گمنام قبریں: ایک چیختی ہوئی خاموشی
تحریر: این کیو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر صبح جب سورج بلوچستان پر طلوع ہوتا ہے، تو ایک ماں اپنے بیٹے کی واپسی کی امید لیے دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہوتی ہے۔ ایک بہن اپنے بھائی کی یاد میں آنسو بہاتی ہے۔ ایک بچہ اپنے باپ کے بغیر زندگی کی سمجھ سے عاری گلیوں میں بھٹکتا ہے۔ اور پھر، جب رات کا اندھیرا ہوتا ہے، ایک اور بلوچ غائب کر دیا جاتا ہے۔ کبھی گھر سے اٹھایا جاتا ہے، تو کبھی سڑک سے، کبھی بازار سے۔ پھر چند دنوں بعد، کسی ویرانے میں ایک لاش ملتی ہے، جس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ اور پھر ایک سرکاری اعلان: “یہ تو دہشت گرد تھا۔”
کیا وہ طالب علم جو اپنی تعلیم کے لیے، وہ مزدور جو اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے کی جدوجہد کر رہا تھا، وہ باپ جو اپنی بچوں کے لیے خواب دیکھتا تھا، کیا وہ دہشت گرد تھا؟ بلوچستان کے لوگ یہ سوال برسوں سے پوچھ رہے ہیں، مگر جواب کی بجائے انہیں مزید قبریں ملتی ہیں۔ یہ قبریں صرف لاشیں نہیں دباتیں، یہ ایک قوم کی امیدوں، اس کے عزائم، اور اس کی شناخت کو دفن کرتی ہیں۔
بلوچ قوم اپنی زمین کے لیے لڑ رہی ہے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ کیا یہ جرم ہے؟ کیا اپنی زمین سے محبت کرنا، اپنی شناخت کو بچانے کی جدوجہد کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا ”گمنام قبروں“ یا ”مسخ شدہ لاشوں“ کی صورت میں ملے؟ بلوچستان کے لوگ اپنے وسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں، اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی زمین کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر ان کی آواز کو دبانے کے لیے انہیں موت کے تحفے دیے جا رہے ہیں۔
اور دنیا؟ دنیا کیوں خاموش ہے؟ وہ دنیا جو ”انسانی حقوق“ کے نعرے بلند کرتی ہے، وہ دنیا جو انصاف کی بات کرتی ہے، وہ کیوں بلوچستان کے درد پر تماشائی بنی ہوئی ہے؟ کیا بلوچوں کا خون اتنا سستا ہے کہ اسے بہتے دیکھ کر کوئی نہیں بولتا؟ کیا ان ”گمنام قبروں“ کی چیخیں ”اقوام متحدہ“ کے ایوانوں تک نہیں پہنچتیں؟ کیا ”عالمی میڈیا“ کو ان ماؤں کے آنسو نظر نہیں آتے جو اپنے بیٹوں کی واپسی کے انتظار میں زندگی گنوا دیتی ہیں؟
یہ گمنام قبریں صرف بلوچستان کا المیہ نہیں، یہ ”انسانیت“ کے ضمیر پر ایک دھبہ ہیں۔ ہر قبر کے پیچھے ایک کہانی ہے، ہر قبر کے پیچھے ایک خاندان ہے، ایک ماں کی فریاد ہے، ایک بچے کا سوال ہے کہ “میرا والد کہاں ہے؟“ بلوچ قوم اپنی زمین کے لیے لڑ رہی ہے، اپنی شناخت کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ مگر اس جدوجہد کو ”دہشت گردی“ کا لیبل لگا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ایک سوال ہے پوری دنیا کے لیے کہ تم کب تک خاموش رہو گے؟ تم کب تک ان گمنام قبروں کو نظر انداز کرو گے؟ ایک پکار ہے، ان ماؤں کی، ان بہنوں کی، ان بچوں کی، جو اپنے پیاروں کی ایک جھلک کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ ایک مطالبہ ہے کہ بلوچستان کی ”جبری گمشدگیاں“، ”مسخ شدہ لاشیں“، ”گمنام قبریں“ مزید گمنام نہ رہیں۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ بلوچوں کا جرم کیا ہے؟ کیا اپنی سرزمین سے محبت جرم ہے؟ اگر ہاں، تو پھر یہ جرم ہر بلوچ کے دل میں ہے، اور اسے مٹانے کے لیے کتنی ہی گمنام قبریں بنائی جائیں، یہ جذبہ کبھی نہیں مرے گا اور یہ جذبہ مزید بڑھے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔