افغانستان کا پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام، ’نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی‘

162

افغانستان کی وزراتِ دفاع کی جانب سے پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی اور کابل سمیت دو مقامات پر فضائی حملوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر افغان وزاتِ دفاع کے سرکاری اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایک بار پھر پاکستان نے افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور کابل اور ڈیورنڈ لائن کے قریب پکتیکا کے علاقے میں ایک بازار پر بمباری کی ہے۔‘

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعرات اور جمعہ کی شب پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مختلف مقامات کو فضائی اور ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔

اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا تاہم جمعہ کی سہ پہر پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے اس بارے میں سوالات کیے گئے تو انھوں نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ’پاکستانی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

افغان وزراتِ دفاع نے پاکستان کے مبینہ حملے کو ایک ’پُرتشدد‘ اور ’قابلِ مذمت عمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ میں ایسے اقدام کی مثال نہیں ملتی۔ ’ہم افغانستان کی فضائی حدود کی اس خلاف ورزی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اپنی خودمختاری کا دفاع ہمارا حق ہے۔‘

طالبان کی وزراتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے بعد اگر صورتِحال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو اس کے نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر عائد ہو گی۔

ادھر انڈیا کے دورے پر موجود افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل اور دیگر علاقوں میں متعدد دھماکوں (جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کے حملے قرار دیا جا رہا ہے) پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے پاس یہ اطلاع ہے کہ کابل میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن رات بھر کی تلاش کے بعد کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی اور ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ آواز کس چیز کی تھی آیا وہاں معدنیات میں کام کرنے والوں نے کوئی دھماکہ کیا یا کوئی اور بات ہے۔‘

افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا ’تاہم دور دراز سرحدی علاقوں میں کچھ حملے ہوئے ہیں جن کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اور اسے پاکستان حکومت کی غلطی سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل طاقت کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے۔‘

انھوں نے کہا ’ہم نے تفاہم اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں ایک اہم تجارتی راہداری بننے کا موقع دیتی ہے۔ اس ےس فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم جیسے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ویسے ہی ہم پاکستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن یہ دونوں طرف سے ہو سکتا ہے، ایک طرف سے یہ ممکن نہیں ہے۔‘

امیر خان متقی نے نے کہا ’اس لیے آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے اور افغانوں کے حوصلے کو نہیں آزمانا چاہیے۔ اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات کرتا ہے تو اسے ایک بار انگریز، سوویت یونین (یو ایس ایس آر) امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہیے۔ وہ آپ کو سمجھائیں گے کہ افغانستان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔‘

جمعہ کی سہ پہر پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے دو مرتبہ پوچھا گیا کہ آیا پاکستانی فورسز نے سرحد پار افغانستان میں فضائی کارروائیاں کی ہیں یا نہیں۔

پہلی مرتبہ اس سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس کی تصدیق یا تردید کیے بغیر کہا کہ ’یہ جو آپ نے سٹرائیک کی بات کی اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اور افغان (طالبان حکومت کے) ترجمان کے بیان کو نوٹ کیا گیا ہے۔‘

جب دوسری بار اُن سے یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستانی فورسز نے گذشتہ شب کابل میں چار مقامات پر فضائی کارروائیاں کی ہیں اور اس میں ٹی ٹی پی کے رہنما نور ولی محسود کو نشانہ بنایا گیا ہے؟

اس پر ترجمان پاکستانی فوج نے کہا کہ ’میں آپ کو یہ واضح کر چکا ہوں کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔ پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

خیال رہے جمعرات اور جمعہ کی شب دونوں ملکوں میں صحافیوں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے ایسے غیرمصدقہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان کی جانب سے مفتی نور ولی محسود کو کابل میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ شب تصدیق کی تھی کہ کابل شہر میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کسی جانی نقصان کے بارے میں اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔

ایکس پر اپنے بیان میں انھوں نے عوام سے کہا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو۔

انھی افواہوں کے بیچ سوشل میڈیا پر مفتی نور ولی محسود کا ایک آڈیو بیان بھی منظرِ عام پر آیا جس میں وہ خود پر حملے کی تردید کرتے سنائی دیتے ہیں۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک تجویز یہ ہے کہ اگلے ایک دو روز میں ایک وفد کابل بھیجا جائے اور افغان حکمرانوں کو بتایا جائے کہ یہ اب ناقابلِ بداشت ہو گیا ہے۔‘