بلوچ قوم پرستی اور مزاحمت کا عروج
تحریر: میر محمد علی تالپور
انگریزی سے ترجمہ: رَگاس نَامرا
قوم پرست اُن حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جن سے انہیں محروم رکھا گیا ہے اور جن کے خلاف ریاست بلا کسی خوف ظلم کرتی ہے، اور “لبرلز” (ترقی پسند) بھی ان کو بغیر کسی غور و خوض کے مسترد کر دیتے ہیں جو در حقیقت عوامی حقوق کی پروا بھی نہیں کرتے۔ بلوچ قوم پرستی کو فاشزم (آمریت) قرار دے کر اور اس کے خلاف بیانیے کو ایک ہتھیار بنا کر اس کو بدنام کیا جاتا ہے۔ مجھے قوم پرستی اور اس کے بارے میں مختلف ذہنیتوں اور مفادات کے رویّے پر چند الفاظ کہنے ہیں۔ بعض اوقات، جو لوگ قومی آزادی کے لیے جد و جہد کرتے ہیں ان کو ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے فاشسٹ کا لیبل دیا جاتا ہے۔ یہ ایک اشتعال انگیز دعویٰ ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے۔ لبرلز کا یہ طرزِ عمل ریاستی بیانیہ ہے، جو سوچوں میں بھی فرق کو دباتی اور مسترد کرتی ہے، جسمانی تنوع و تفریق کی بات تو چھوڑ ہی دیں۔ سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ فاشزم اصل میں ہوتا کیا ہے؟
یہ ایک معاشرے کو اُس طریقے سے منظم کرنے کا نام ہے جس میں ریاست ایک آمر کے زیر حکومت چلتی ہے جو اپنے لوگوں اور عوام کی زندگیاں قابو میں رکھتا ہے اور کسی بھی باز پرس یا انکار سے منع کرتا ہے۔
ویسے تو فاشزم لاطینی لفظ فاشیو (fascio) سے نکلا ہے جس کے معنی گٹھا کے ہیں جو رومن سلطنت سے جڑا ہوا ہے مگر اس کا استعمال مختلف اقوام کو جبر اور طاقت کے ذریعے ایک سامراجی نظام میں ضم کرنے کے لیے کیا گیا۔
آج کل فاشزم مضمر طریقوں سے ایران، ترکی، اور ہاں پاکستان میں دکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ، اس انداز میں نہیں جیسا کہ آزاد خیالوں کا گمان ہے۔ پاکستانی ریاست ایسی چالیں استعمال کرتی ہے جو عوام میں انتشار، مایوسی اور بددلی پیدا کرتی ہیں، جو بصورت دیگر بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہونے پر اکساتے ہیں۔
عوام کو فوج، ایف۔سی، رینجرز، انٹیلیجنس ایجنسی اور پولیس کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ سرکاری ادارے اپنے کیے ہوئے ناانصافیوں کو چھپانے اور ان سے توجہ ہٹانے کے لیے حقیقت پوشی اور فریب کاری کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
سندھ میں عوام کو تالپور دورِ حکومت کے مسائل کی طرف اشارہ کرکے ان کو انتشار کا شکار بنا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر باآسانی ان کے حقوق چھین کر انہیں دبا کر ان کا اپنے من مانی طریقے سے استحصال کرتے ہیں۔
ارسطو نے کہا تھا کہ: “ظالم حکمران ایسے حربے استعمال کرتے ہیں جو انہیں آسانی سے حکومت کرنے میں مدد دیں۔ ایسے جابر و ظالم حکمرانوں کو تب تک ہٹایا نہیں جاسکتا جب تک عوام ایک دوسرے پر ایمان اور اعتماد نہیں رکھتے۔”
یہ ہے دوستو جسے “فاشزم” کہتے ہیں۔
اور اب بھی لبرلز قوم پرستی پر ریاست کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ قوم پرستوں کے خلاف ریاست کے ایجنڈے اور سازشیں اخلاقی اور قانونی طور پر انصاف دا ہیں، جو کہ مہلک حد تک خطرناک ہے۔
اب تک بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، اور گلگت بلتستان میں بلکل یہی چلتا آ رہا ہے۔ ریاست یہ دعویٰ کرتا آ رہا ہے کہ اسے پتہ ہے عوام کی دیکھ بھال کیسے کرنی ہے۔ لیکن وہ عوام کی خواہشات اور ضرورتوں کو پورا کرنے کا خواہاں ذرا بھی نہیں ہے، ریاست صرف مجھے، تمہیں اور دوسروں کو اپنے فرمانبردار بنانے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ صرف کسی ریشمی دستانے کے اندر اپنا آہنی وار چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اکثر عوام کو اعتراض کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر جد و جہد سے روکنے اور دبانے کے لیے بےحیا اور ظالم طاقتوں کا سہارا لیتا ہے۔
وہ جو یہ کہتے ہیں کہ قوم پرستی فاشزم ہے ریاست کو اور ظلم ڈھانے میں مدد دے رہے ہیں اور اس طرح وہ بھی انسانیت کے خلاف جرم میں ملبوس ہیں۔ اگر ان کا آزاد خیالی ایسا ہے تو پھر ان کا فاشسٹ ہونا کیسے رہے گا؟
یقیناً، قوم پرستی صرف آمریت کو برا بھلا کہنے تک ہی محدود نہ رہے اور ناکہ حریت پسند ریاست کے جمہوریت کے نام پر اس تشدد کو سہارا دیں۔
آپ صرف اس بِنا پر کہ قوم پرست جماعتیں ویسے نہیں بنتے جیسا کہ آپ ان کو چاہتے ہیں کہ بنیں ریاست کے اس ظلم و تشدد کو سہارا نہیں دے سکتے۔
ایسی قوم پرست جماعتیں جو ریاست سے سمجھوتا کیے بغیر قومی حقوق کے لیے جد و جہد کرتے ہیں اچھے نہیں سمجھے جاتے، مگر وہ ایک فاشسٹ ریاست (جیسے کہ پاکستان جو کبھی بھی اپنے لوگوں کا نہیں ہوگا) کے جماعت کو جائز نہیں ٹھہراتے۔
سابق مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستوں کے ساتھ جو جارحیت اپنائی گئی تھی کبھی بھی بھلایا نہیں جائے گا۔ اس وقت بھی ایسے دانشور تھے جنہوں نے “قوم پرستی فاشزم ہے” کے نعرے لگا کر پاکستان کی فوج اور دوسرے تشدد کرنے والے گروہوں کی مدد کرکے پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھنے کی حمایت کی تھی۔
کیا بنگالی جو اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے، جو عزت و آزادی مانگ رہے تھے فاشسٹ تھے؟ کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ فاشسٹ نہیں تھی؟
کیا بلوچستان اور سندھ میں خود ارادیت کا حق مانگنا فاشزم ہے؟
قوم پرستی فلسطینیوں اور کُردوں کو بھی اُکساتی ہے کہ وہ تُرکی سے اپنے حقوق اور زمین کا مطالبہ کریں، کیا وہ بھی فاشسٹ ہیں؟ تو پھر یہ فاشسٹ کا لقب صرف سندھی اور بلوچوں کو اپنے حقوق مانگنے پر کیوں لگایا جا رہا ہے؟
مجھے نہیں لگتا کہ آزادی کا مطالبہ کرنا فاشزم ہے۔ لیکن میں یہ یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ قومی خود ارادیت کے حق کو دبانا ضرور فاشزم ہے۔
روسی انارکسٹ میخائل باکونن ریاست کے ارادے اور اس کے کردار کو بے نقاب کرکے کہتا ہے:
“In public life…from the standpoint of patriotism, when these things are done for the greater glory of the state, for the preservation or the extension of its power, it is all transformed into duty and virtue.”
“عوامی زندگی میں۔۔۔ جب ریاست اپنی طاقت کو برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے یہ سب چیزیں حب الوطنی کے نقطہ نظر سے بڑی شان سے کرتی ہے تو یہ سب فرض اور نیکی میں بدل جاتے ہیں۔”
یہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کیوں قدیم اور جدید ریاستوں کی پوری تاریخ محض گھناؤنے جرائم کی ایک تسلسل ہے۔ پرانے اور آج کے وقت کے ملکوں کے بادشاہوں، وزیروں، سیاست دانوں، سفارتکاروں، اور جنگجوؤں کو اگر اخلاقیات اور انسانی انصاف کے نقطہ نظر سے فیصلہ سنایا جائے تو وہ سیکڑوں، ہزاروں بار پھانسی کے مستحق ہونگے۔ یہاں کوئی ایسی دہشت، ظلم، بے حرمتی، جھوٹی قسم، فریب، رسوائی، ڈھٹائی سے کی گئی لوٹ مار، خونریزی، کھسوٹ کا کمینی غداری نہیں جو ریاست کے نمائندوں کے ہاتھوں سرزد نہیں ہوئی ہے۔
کسی اور بہانے کے تحت نہیں بلکہ صرف (ریاستی وجوہات) کے تحت۔
یہ لچیلے الفاظ جو بظاہر کتنے سہل مگر ہولناک ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ قوم پرست فاشسٹ ہیں یا اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی؟
’’ریاستی وجوہات‘‘ کے نام پر بنگلہ دیش، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا میں جو ظلم ڈھائے گئے، وہ اس بات کے لیے کافی ہونے چاہئیں کہ لبرل دانشور ریاست کی اصل حقیقت کو سمجھ سکیں اور یہ جان لیں کہ ریاست اور مادی مفادات کے بجائے عوام کو اولین حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
قوم پرستوں کو اکثر ان کے آواز اٹھانے پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن جو بات بڑی آسانی سے فراموش کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تشدد دراصل اس بڑے تشدد کا جواب ہوتا ہے جو ریاست کرتی ہے۔ بغاوتیں اچانک جنم نہیں لیتیں۔ پھر بھی، ریاست کے تشدد کو ہمیشہ عمومی منظوری ملتی ہے، جبکہ مذمت صرف قوم پرستوں کے حصے میں آتی ہے۔
اگر کبھی لبرل طبقہ ریاستی تشدد کی مذمت کرتا بھی ہے تو وہ سب سے زیادہ خوشنما، نرم اور بزدلانہ انداز میں کی جاتی ہے۔ اکثر اوقات قوم پرستوں کی اپنی جدوجہد کے لیے دی جانے والی عظیم قربانیوں کو لبرلز طنز اور ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب لاحاصل ہے کیونکہ کامیابی کے امکانات نہایت کم ہیں۔ لیکن، ہم دیکھیں کہ “ہو چی منہ” کی قیادت میں ویتنامی عوام کی امریکی سامراج کے خلاف قربانیاں لاحاصل نہ تھیں، نہ ہی عمر مختار کی قیادت میں لیبیائی عوام کی اٹلی کے خلاف جدوجہد بے سود رہی، اور نہ ہی فلسطینیوں کی اسرائیلی قبضے کے خلاف جُہد۔ ایسے کئی قومی جدوجہد کی بے شمار مثالیں ہیں جو عظیم قربانیوں کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
فریڈرک نطشے کہتا ہے:
“اپنے وجود پر اختیار حاصل کرنے کے شرف کے لیے کوئی بھی قیمت زیادہ نہیں ہے۔”
اور حقیقتاً، قومی آزادی کی جدوجہد دراصل اپنے وجود پر اختیار حاصل کرنے کے شرف کی جدوجہد ہی ہے۔
جو لوگ قوم پرستی کو اس لیے برا کہتے ہیں کہ قوم پرست اپنی زمین اور اپنے وسائل پر حق مانگتے ہیں، وہ فرانز فینن کے ان الفاظ کو بھی بھول جاتے ہیں: “نوآبادیاتی قوم کے لیے سب سے بنیادی اور سب سے حقیقی قدر زمین ہے، وہ زمین جو اسے روٹی اور سب سے بڑھ کر عزت دیتی ہے۔”
بعید سرزمین کے آزادی کے بغیر کوئی بھی عزت اور سکون کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ دوسرا راستہ محض اطاعت اور غلامی ہے، جس کے بارے میں امانوئل کانٹ کہتا ہے: “جو شخص خود کو کیڑا بنا لیتا ہے، وہ اس کے بعد شکوہ نہیں کر سکتا کہ لوگ اس پر پاؤں کیوں رکھ رہے ہیں۔”
میں خود کو ایک ’’فاشسٹ‘‘ کہلوانے پر زیادہ ترجیح دوں گا، وہ شخص جو قومی آزادی کے لیے کھڑا ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ فرمانبردار اور بزدل لبرل کہلاؤں جو وفاقیت اور قوموں کی نام نہاد وحدت کے نام پر ان مظلوم عوام پر ہونے والے ریاستی جبر کی حمایت کرتا ہے جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
یہ ہمیشہ فاشزم ہی ہے جو قومی آزادی کی راہ میں طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں کے ساتھ رکاوٹ بنتا ہے، اور پھر انہی کو لبرل طبقہ اپنا کر آگے بڑھاتا ہے۔ اگر خیر بخش مری، مخدوم بلاول، شیر محمد مری، مجید لانگو، علی شیر کُرد، حمید بلوچ، سرائی قربان، بالاچ مری، اکبر خان بگٹی اور وہ سب لوگ جو بلوچستان اور سندھ کے لیے جیے اور مر گئے، فاشسٹ تھے، تو مجھے فخر ہوگا کہ میرا شمار بھی انہی میں کیا جائے۔
ریاست کا عوام پر عدم اعتماد، ان پر جبر، اور اس کے نتیجے میں ہونے والی داخلی نقل مکانی نے عوام کو ان گروہوں کی حمایت سے باز نہیں رکھا جنہیں وہ اپنی نجات کی خاطر لڑنے والا سمجھتے ہیں۔ اسی عوامی حمایت کی وجہ سے، حکومت اور فوج کی بار بار کی جانے والی یہ دعوے کہ بلوچ بغاوت کو کچل دیا گیا ہے، بے اثر ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ بلوچ مزاحمت ریاست کی طاقت کے آگے جھکنے سے ہمیشہ انکاری رہا ہے۔
بلوچستان کا سماجی اور سیاسی نقشہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے، اور یہ تبدیلی براہِ راست پاکستانی ریاست کی بے حسی اور ان مظالم کے تناسب سے ہے جو ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر ڈھائے گئے۔ بلوچ عوام نے ریاست سے انصاف کی امید چھوڑ دی ہے اور وہ ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے جو ریاستی مفادات کو آگے بڑھانے کی نیت رکھتے ہیں۔
ماضی میں پرو اسٹیبلشمنٹ سردار یہ طے کرتے تھے کہ عوام کیا سوچیں اور کیسے عمل کریں، لیکن اب بلوچستان میں سماجی اور سیاسی تعلقات کی تعارف بلوچ مزاحمت کرتی ہے اور عوام فخر کے ساتھ اپنی شناخت اُن سرمچاروں کے ساتھ جوڑتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دسمبر 2018 میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت آئی جب (بلوچ راجی آجوئی سنگر) (BRAS) کی تشکیل ہوئی۔ یہ ایک ڈھیلا ڈھالا مگر فعال انتظام ہے جو بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) اور بلوچ ریپبلکن گارڈ پر مشتمل ہے تاکہ وہ اپنے کام کو مربوط کر سکیں اور جہاں ممکن ہو، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ یقیناً ایک بڑی تبدیلی ہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہی یہ ایک گروہ دوسرے گروہ پر الزام تراشی اور طنزیہ اشارے کرتے رہتے تھے۔
یہ بات درست ہے کہ یہ عمل نہ صرف کسی مخصوص گروہ کو بلکہ پورے اس ڈھانچے کو بے نقاب اور خطرے میں ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے جو ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کو سہارا دے رہے ہیں اور اُس آزادانہ ہاتھ کے راستے میں رکاوٹ ہوگا جس کی ضرورت ہے تاکہ بلوچ وسائل کے استحصال کو نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور اُن دیگر طاقتوں کے لیے بھی منافع بخش اور سودمند بنایا جا سکے جو بلوچوں کی ممکنہ جوابی کارروائیوں کے خوف سے بلوچستان میں قدم رکھنے سے گریزاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین اس تعاون کو نہایت ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے مفاد اسی بات میں ہیں کہ استحصال کے خلاف مزاحمت کرنے والے گروہوں کے درمیان اور اندرونی طور پر اختلافات اور دشمنیاں قائم رہیں۔
یہ بلوچوں کا اعزاز ہے کہ وہ 27 مارچ 1948 سے باوجود اس کے کہ وہ تعداد اور اسلحے میں کمزور ہیں کبھی مضبوط صورت میں تو کبھی طاقت سے اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرتے آ رہے ہیں، لیکن ہر نئی لہر اپنی پچھلی مزاحمت سے زیادہ دیرپا اور زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ وہ نہ صرف زندہ رہے ہیں بلکہ عوام کو امید دیتے رہے ہیں اور ہر طرح کے استحصال کے خلاف ایک رکاوٹ بنتے آ رہے ہیں۔ اِن گروہوں کو توڑنے اور منتشر کرنے کے لیے ریاست نے نہ تو پیسے کے استعمال میں کوئی کمی کی اور نہ ہی طاقت کی، بلکہ یہ بھی کوشش رہی ہے کہ عوام کو اس حد تک مایوس کر دیا جائے کہ وہ مزاحمت کرنے والوں کی کامیابی اور مؤثریت پر یقین کھو بیٹھیں اور ریاست کے بیانیے کو مکمل طور پر قبول کر لیں۔ اس طرح نہ صرف جسمانی مزاحمت کے باقی ماندہ آثار مٹ جائیں بلکہ حقوق کے حصول کی خواہش اور امیدیں بھی کلی طور پر فنا ہو جائیں۔
تاہم، زندہ رہ پانا ایک مثبت پہلو ہے جو نہ صرف ہم خیال لوگوں بلکہ ہمدردوں اور تذبذب میں پڑے ہوئے افراد کے درمیان بھی امید کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے حوصلے بھی پست کرتا ہے جو مزاحمت کے خاتمے کے خواہاں ہیں، چاہے یہ مزاحمت کبھی کبھار اور وقفے وقفے سے ہی کیوں نہ ہو، انہیں ہر وقت چوکنا رہنے پر مجبور کرتی ہے اور اس پر بہت بھاری اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ مزاحمت کا مسلسل جاری رہنا ان کے لیے سبکی کا باعث بھی بنتا ہے، کیونکہ وہ بار بار جعلی ’’کرائے کے ہجوم‘‘ کی سرنڈر تقریبات اور اس بات کے دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے اس ’’خطرے‘‘ کو ختم کر دیا ہے۔ مزاحمت کا قائم رہنا اور اسے کچلنے کی وحشیانہ کوششیں غیر ملکی دارالحکومتوں میں بھی سوالات کو جنم دیتی ہیں، اگرچہ وہ اس معاملے پر علانیہ رائے نہیں دیتے۔
ان تمام برسوں کی مزاحمت میں حاصل ہونے والی حمایت اتنی بڑی کبھی نہیں رہی کہ کوئی معیاری تبدیلی لا سکے اور اُس ’نقطۂ عروج‘ تک پہنچ سکے جو پھر عوامی ردِعمل کو جنم دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے سیاست دانوں کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ہے جو اس ظاہری اختیار پر مطمئن ہیں جو انہیں حاصل ہے، حالانکہ تمام فیصلے فوجی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ بہت سے سیاست دانوں نے ریکارڈ پر یہ کہا ہے کہ ایف سی (FC) ایک متوازی حکومت چلا رہی ہے، لیکن ان میں نہ تو اخلاقی جرات ہے اور نہ ہی اتنی ہمت کہ وہ اس نظام سے علیحدگی اختیار کریں جو انہیں بے اختیار رکھتا ہے۔ ایسے سیاست دان عوام کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خدمت کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ریاست کو جبر اور استحصال جاری رکھنے پر اُکساتی ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بلوچ اتحاد تقریباً ناممکن ہے۔
بلوچوں کے خلاف یہ انتقامی جبر اور منظم حق تلفی خود بلوچوں کے اندرونی انتشار اور تقسیم سے تقویت پاتی ہے۔ یہاں درختوں اور کلہاڑے کی تمثیل بالکل موزوں ہے۔ درخت شکایت کرتے تھے کہ کلہاڑا ان پر ظلم ڈھا رہا ہے اور اس کے مظالم کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے۔ انہیں جواب ملا کہ اگر تم میں سے کچھ درخت کلہاڑے کا دستہ نہ بنتے تو کلہاڑا بالکل بے ضرر ہوتا۔ بلوچوں کے درمیان ہر سطح پر موجود یہ سڑتی اور زہریلی تقسیم یقیناً بلوچوں کے کسی کام نہیں آ رہی بلکہ اس کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کو اور زیادہ طاقت دے رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ تباہ کن اور مہلک تقسیم تمام بلوچوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ یہی چیز اسے مزید سخت اور ناانصافی پر مبنی اقدامات اٹھانے پر اُبھارتی ہے تاکہ بلوچوں کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ دوبارہ سنبھل نہ سکیں۔ وہ لوگ جو خود کو بلوچ رہنما کہتے ہیں بلوچ حقوق کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری پوری طرح اُن کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
اگر ہم ابھی بھی اتحاد میں نہ رہیں تو یہ خطرہ ہے کہ بلوچوں کی حقوق کی جدوجہد ایک بھلا دیا گیا باب بن جائے گا۔ اگر کثیر اور مطلوبہ ’نقطۂ عروج‘ حاصل کرنا ہے تو اتحاد بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے مختلف طریقے اپنی انفرادی حیثیت میں کسی بھی طرح اتنے مضبوط نہیں کہ وہ ریاست کے رویے اور اس کے عوام پر طاقت کے استعمال کو بدلنے پر مجبور کر سکیں۔
ہمیں ایک سیاسی اور سماجی بیداری کی تحریک کی ضرورت ہے جو عوام کو جبر اور استحصال کی ناانصافیوں کے خلاف جگائے اور متحد کرے۔ 26 مئی 2020 کو جنوب مغربی بلوچستان کے شہر تربت کے نواحی علاقے ڈنک میں جب مسلح افراد نے ان کے گھر پر دھاوا بولا تو “ملک ناز” کے قتل اور ان کی چار سالہ بیٹی “برمش” کے شدید زخمی ہونے کا واقعہ پیش آیا، ایک معروف ’’ڈیتھ اسکواڈ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا۔
یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ذمہ داری ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 14 جون 2020 کی رات کو تمپ، ضلع کیچ میں “کلثوم” نامی ایک محنت کش خاتون کو اُس کے بچوں کے سامنے ڈکیتی کے دوران قتل کر دیا گیا۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ جب 22 اگست 2020 کو کراچی یونیورسٹی کے طالب علم “حیات بلوچ” کو، جو اپنے والدین کی کھجور کے باغ میں مدد کر رہا تھا، ایف سی (F.C) نے ضلع کیچ کے علاقے آبسر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ اگر یہ قتل بھی کوئی ایسی سیاسی اور سماجی تحریک کو جنم نہ دیں جو مفاہمت اور رعایتوں کی تلاش میں مصروف “قوم پرست جماعتوں” سے آزاد ہو، تو پھر امیدیں یوں ہی ماند پڑتی جائیں گی۔ جب تک سیاسی اور سماجی اقدامات ریاست کی ناانصافیوں، جبر اور استحصال کو للکاریں گے نہیں، تب تک اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے تنہا ہی رہیں گے اور ریاست کی زد میں آتے رہیں گے۔ ایک ایسی تحریک کو جنم دینا ہوگا جو زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو یکجا کرے تاکہ وہ پہلے سے جاری ’’لاپتہ افراد‘‘ کی بازیابی کی تحریک کے ساتھ جڑ کر ایک دوسرے کی تکمیل کر سکیں۔
ایک اور اہم مسئلہ بھائی چارے کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی ہے، جیسے “پشتون تحفظ موومنٹ” سندھ کی بعض قوم پرست سیاسی تحریکیں اور بائیں بازو کے وہ عناصر جو واقعی قومی سوال کو سمجھتے ہیں اور ہماری حمایت کرتے ہیں۔ ان کے درمیان انسانی پہلوؤں پر پہلے ہی حمایت اور یکجہتی موجود ہے، لیکن اس یک جہتی کو سیاسی مقاصد کی حمایت تک وسعت دینا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر تعاون کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ریاستی ناانصافیوں کے خلاف رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے، جو محض انسانی پہلوؤں تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے پھیلی ہوئی ہیں۔
اگر بلوچ ریاست کے مسلسل حملوں کے سامنے زندہ رہنا چاہتی ہے تو ان کے حقوق کی جدوجہد کو اپنی بصیرت اور دائرہِ عمل کو وسعت دینی ہوگی اور نہ صرف زندہ رہنا بلکہ عوام اور ہمدرد تنظیموں کی اتنی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے کہ وہ مطلوبہ اور فیصلہ کن ’نقطۂ عروج‘ تک پہنچ سکے، جو اُن معیاری تبدیلیوں کو جنم دے گا جو اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔
﴿یہ آرٹیکل سب سے پہلے جنوری 2025 میں انگریزی میں “Pakistanmonthlyreview.com” میں شائع ہوا﴾
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔