اسرائیل اور حماس نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا

3

اسرائیل اور حماس کے درمیان امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا کہ انہیں یقین ہے کہ غزہ میں تمام قیدی، جن میں وفات پا جانے والے قیدیوں کی لاشیں بھی شامل ہیں، ’پیر کو واپس آ جائیں گے۔‘

ٹرمپ نے فاکس نیوز پر ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا: ’یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ وہ سب پیر کو واپس آ جائیں گے، تو یہ لگتا ہے کہ یہی بات ہے، اور اس میں فوت ہو جانے والے قیدیوں کی لاشیں بھی شامل ہوں گی۔‘

اسرائیل اور حماس نے جمعرات کو غزہ کی جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جس کا مقصد ایسی جنگ کا خاتمہ ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، فلسطینی علاقے کو تباہ کیا جا چکا ہے اور بڑے انسانی بحران کا آغاز ہوا ہے۔

اس معاہدے میں، جس پر جمعرات کو دستخط کیے جائیں گے، قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے، جو 2023 کے اکتوبر میں حماس اس حملے جس کی مثال نہیں ملتی، کے بعد شروع ہونے والی دو سال سے زیادہ جاری رہنے والی جنگ کے بعد ہو رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس تمام قیدیوں کو آزاد کرے گی جب کہ اسرائیل اپنی افواج کو متفقہ لائن پر واپس لے جائے گا، یہ بات انہوں نے مصر میں اپنے 20 نکاتی امن منصوبے پر مذاکرات کے بعد کہی۔

قطر نے کہا کہ یہ معاہدہ ’غزہ کی جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ ہے، جو جنگ کے خاتمے، اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور امداد کی آمد کی طرف لے جائے گا۔‘

حماس کے ایک ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس پہلے مرحلے کے معاہدے کے تحت 20 زندہ یرغمالیوں کا تبادلہ تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کے ساتھ کرے گا۔

ذرائع نے مذاکرات سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ تبادلہ اس معاہدے کے نفاذ کے 72 گھنٹے کے اندر کیا جائے گا، جس پر جمعرات کو دستخط کی توقع ہے۔‘

اس ذریعے نے مزید بتایا: ’یرغمالیوں کی رہائی 250 فلسطینیوں کے بدلے ہوگی جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور 1700 دیگر افراد جنہیں جنگ کے آغاز سے اسرائیل نے گرفتار کیا۔‘

 ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ ٹروتھ سوشل پر کہا کہ ’میں یہ اعلان کرنے پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے ہیں۔‘

’اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام یرغمالی بہت جلد آزاد ہوں گے، اور اسرائیل اپنی افواج کو ایک متفقہ لائن پر واپس لے جائے گا، جو مضبوط، مستقل اور ہمیشہ کے امن کی طرف پہلا قدم ہے۔‘

ٹرمپ نے ثالثی کرانے والے ممالک قطر، مصر اور ترکی کا بھی شکریہ ادا کیا، اور کہا: ’صلح کرنے والوں پر رحمت ہو۔‘

ٹرمپ نے پہلے کہا تھا کہ وہ اس ہفتے مشرق وسطیٰ کا سفر کر سکتے ہیں کیوں کہ معاہدہ ’بہت قریب‘ ہے۔

ایک ڈرامائی لمحے میں، اے ایف پی کے صحافیوں نے دیکھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کو روک دیا اور ٹرمپ کو مذاکرات کی پیشرفت کے بارے میں ایک ہنگامی نوٹ دیا۔

ٹرمپ نے کہا: ’میں ممکنہ طور پر ہفتے کے آخر میں، شاید اتوار کو وہاں جا سکتا ہوں۔ زیادہ تر‘ مصر میں پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن غزہ میں بھی جانے پر غور کریں گے۔‘

ٹرمپ کے منصوبے میں جنگ بندی، غزہ میں تمام قیدیوں کی رہائی، حماس کی ڈس آرممنٹ اور علاقے سے اسرائیلی افواج کی مرحلہ وار واپسی کی تجویز شامل ہے۔

ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشر اور مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے پہلے مذاکرات میں شرکت کی۔

’امید کی فضا‘

جب رات جنوبی غزہ کے ساحلی علاقے المواسی میں خبر پہنچی تو اے ایف پی کے ایک رکن نے اعلان سے پہلے کی فضا بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں خوشی میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگ رہے تھے، اور کچھ لوگوں نے جشن مناتے ہوائی فائرنگ کی۔

50 سالہ محمد زاملوٹ نے، جو شمالی غزہ سے بے گھر ہوئے  تھے کہا کہ ’ہم مذاکرات اور جنگ بندی کے بارے میں ہر خبر پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

حماس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے لیے فلسطینی قیدیوں کی فہرست پیش کی ہے۔

اس کے بدلے، حماس باقی 47 قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہے، جو زندہ اور مردہ دونوں ہیں، جو اس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران پکڑے گئے تھے جس نے جنگ کا آغاز کیا۔

قطر کے وزیر اعظم اور ترکی کے انٹیلی جنس چیف بھی بدھ کو مذاکرات میں شریک تھے۔

حماس نے کہا کہ وہ اسلامی جہاد  اور فلسطین کی آزادی کی عوامی محاذ کی طرف سے بھیجے گئے وفود کے ساتھ شامل ہوں گے، جو غزہ میں کچھ یرغمالیوں کو اپنے پاس رکھتی ہے۔

یہ مذاکرات 2023 کے حماس کے اسرائیل پر حملے کی دوسری برسی کے سایے میں ہو رہے ہیں۔ مسلح افراد نے بھی 251 لوگوں کو غزہ میں یرغمال بنایا، جہاں 47 اب بھی موجود ہیں، جن میں 25 وہ ہیں جن کا اسرائیلی فوج کاکہنا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔

اسرائیل کی غزہ میں فوجی مہم نے کم از کم 67,183 افراد کی موت کا سبب بنی۔ یہ اعداد و شمار شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان تفریق نہیں کرتے لیکن یہ اشارہ دیتے ہیں کہ مارے جانے والوں میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔